Ad

مرزا داغ دہلوی کی غزل گوئی

مرزا داغ دہلوی غزل گوئی

 مرزا داغ دہلوی کی غزل گوئی

Daag dehlvi ghazal in urdu

داغ کی شخصیت کی ساخت پرداخت اور تعمیر و تشکیل ہی میں نہیں، ان کی شاعری کی تہذیب و تزئین میں بھی لال قلعے کی فضا کا بڑاحصہ رہا ہے ۔ وہ لال قلعہ جس میں مغل سلطنت کی شمع گل ہو رہی تھی لیکن اردو شاعری کی محفل میں چراغاں ہی چراغاں تھے ۔ داغ 14 برس کے ہوں گے، قلعے میں داخل ہوئے۔ ان کی والدہ چھوٹی بیگم نے ولی عہد بہادر نواب مرزا فخرو سے دوسرا نکاح کرلیا تھا اور پھر پہلی جنگ آزادی تک داغ قلعے میں رہے ۔ قلعہ میں ان کو دنیا کی ساری نعمتیں اور آسائشیں حاصل تھیں۔ مغل سلطنت پارہ پارہ ہوچکی تھی ۔ کل کے احوال کسی سے پوشید نہیں تھے لیکن ہر ایک زندگی سے عیش و نشاط کا آخری قطرہ بھی نچوڑ رہا تھا۔ داغ کے مزاج، ان کی شاعری، ان کے افکار و نظریات اور زندگی کے بارے میں ان کے رویّے کی تہذ یب و ترتیب میں ان سارے عناصر کی کار فرمائی تھی ۔ دہلی چھوڑنے کے بعد داغ نے رامپور کا رخ کیا ۔ رامپور میں ان کی خاصی پذیرائی ہوئی ۔ انھیں اس دوران تھوڑی بہت ( بلکہ برائے نام ) مالی پریشانی بھی رہی ہو لیکن ان کی زندگی مجموعی طور پر خاصی اطمینان بخش گز ری اور حیدرآباد میں تو دنیائے شعر و ادب میں انھوں نے اپنا سکہ بٹھا دیا اور نواب میر محبوب علی خاں کی سر پرستی، فیاضی اور دادو دہش سے مستفید ہوئے ۔ ان کی زندگی رنگینیوں میں گزری۔ ان کی شاعری میں اسی کے جھلکیاں ملتی ہیں ۔ ان کے ہاں ایک چلبلاپن، شرارت، شوخی، چھیڑ چھاڑ ، محبوب پر طنز، کبھی کبھی اس کو خاطر میں بھی نہیں لانا، دو ٹوک سنا دینا، بے نیازی او بے پروائی سے کام لینا اور اسی نوعیت کی جو باتیں ملتی ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ انھوں نے ایسے ہی ماحول میں زیست کی ۔ انھوں نے محبوب کو پانے کی کوشش نہیں کی محبوب خود ان کا ہو گیا۔ اس لیے داغ کی شاعری میں ہجر کی با تیں نہیں وصال ہی وصال کے قصے ہیں ۔ حسن محبوب کے تذکرے، اس کے انداز و ادا، رنگ و رخ، خال و قد اور لب و رخسار کی حکایات ہیں اور داغ نے ان کو سو سو طرح نہایت لذت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یہی ان کی دنیا تھی۔ یہ اشعار دیکھیے : 

داغ دہلوی کی شاعری

Daag dehlvi urdu poetry

ہر ادا مستانہ، سر سے پاؤں تک، چھائی ہوئی 

اف! تری کافر جوانی، جوش پر آئی ہوئی


ٹھہر گئے وہ ، وہاں سروِ باغ تھے گویا

اگر چلے تو نسیم بہار ہو کے چلے


قیامت ہے بانکی ادائیں تمھاری

ادھر آؤ لے لوں بلائیں تمھاری


تم کو چاہا تو، خطا کیا ہے، بتا دو مجھ کو

دوسرا کوئی تو اپنا سا بتا دو مجھ کو 

داغ دہلوی کی ہجرت دکن

       داغ کی شاعری میں ہوسنا کی ، لذت  پرستی اور جنسیت کی فراوانی ہے۔ اس کے باوجود بہت کم اشعار ایسے ہوں گے جہاں وہ تہذ یب کے دائرے سے باہر ہوئے ہوں ۔ اپنے عہد کی اعلی تہذیبی اقدار کا انھوں نے پورا پورا لحاظ رکھا۔ پھر قلعہ معلی اور بعد ازاں رامپور اور حیدرآباد کے در باروں سے وابستگی کے باعث ان کے ہاں غیر تہذیبی عناصر، عریانی اور فحاشی جگہ نہ پا سکے ۔ان کے ہاں شوخی، چنچل پن، چھیڑ چھاڑ اور چلبلاہٹ ضرور ہے ۔ کبھی یہ چیزیں اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہیں اور مذاق سلیم پر گراں گزرتی ہیں۔ اس خصوص میں اس ماحول کو ملحوظ رکھنا چاہیے جس میں داغ نے پرورش پائی۔ ان کو کھلی فضا اور آزادانہ ماحول ملا ۔ کوئی ایسا سر پرست نہیں تھا جو روک ٹوک کرتا۔ ان کی شاعری پر اس کا اثر پڑنا لازمی تھا۔ ذیل کے اشعار سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:

داغ دہلوی کے اشعار

Daag dehlvi poetry

شب وصل ایسی کھلی چاندنی 

وہ گھبرا کے بولے سحر ہوگئ 


جلوے کے بعد وصل کی خواہش ضرور تھی

وہ کیا رہا جو، عاشق دیدار ہی رہا


تھے کہاں رات کو، آئینہ تو لے کر دیکھو

اور ہوتی ہے خطا وار کی صورت کیسی 


لے شب وصل غیر بھی کاٹی

ہم کو تو آزمائے گا کب تک


تم کو ہے وصل غیر سے انکار

اور ہم نے جو آ کے دیکھ لیا


تمھاری طرح بھی نہ ہوگا کوئی ہرجائی

تمام رات کہیں ہو ، کہیں ہو سارے دن


     داغ کے ہاں ایسے بلکہ اور کچھ نا روا اشعار بھی مل جائیں گے لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ انھوں نے ہماری تہذیبی روایات اور اخلاقی قدروں کا بھی پاس و لحاظ رکھا بلکہ انھیں عام کرنے کی سعی بھی کی ۔ یہ ان کے مزاج میں شامل تھا اوران کے معاشرے کی ان پر غیر محسوس تحدید بھی ۔ زندگی کے صحت مند پہلوؤں

سے اپنے رشتے کو استوار رکھا۔ ان کے ہاں ایسے اشعار بھی مل جائیں گے:

ملنساری بھی سیکھو جب نگاہ ناز پائی ہے 

مری جاں آدمی اخلاق سے، تلوار جوہر سے


کیوں آدمی کو عالم بالا کی ہو ہوس

بڑھ کر نہیں زمین سے کچھ آسماں کی سیر


اپنے دم کو آ دمی ہر دم غنیمت جان لے 

خاک کا پھر ڈھیر ہے بعد فنا کچھ بھی نہیں


دن گزارے عمر کے انسان ہنستے بولتے 

جان بھی نکلے تو میری جان بنستے بولتے


داغ غزل کے شاعر ہیں، روایتی غزل کے ۔ ان کی غزل گوئی کا رشتہ ساخت اور بافت دونوں اعتبارات سے متقدمین اور متوسطین کی غزل گوئی سے ملتا ہے ۔ اپنے اسی روایتی انداز کے باعث وہ صف اول کے غزل گو شاعروں میں شمار نہیں کیے جاتے ۔ پھر بھی اردو غزل میں داغ کی اہمیت ہے ۔ ان کو اردو غزل میں انفرادی اور امتیازی مقام حاصل ہے ۔ داغ کی غزل کے تیور بڑے بانکے ہیں ۔ ان کی غزل اردو غزل کی روایت سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے بھی کچھ نئے پن کی حامل نظر آتی ہے اور یہ ان کے مخصوص مزاج کی دین ہے ۔ داغ کے مزاج اور ان کے لہجے نے اردو شاعری کے روایتی اور گھسے پٹے موضوعات کو نیا رنگ و آہنگ دیا۔ معشوق سے داغ کا رویہ ، رقیب سے برتاؤ اور زاہد و ناصح سے مراسم، ان سب میں داغ نے اپنی آن بان کو برقرار رکھا ہے۔ ان کی مقبولیت کا ایک سبب ان کے لہجے کی طرح داری اور تیکھا پن ہے ۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں:

آپ کے سر کی قسم ، داغ کو پروا بھی نہیں

آپ کے ملنے کا ہوگا جسے ارماں ہوگا


جواب اس طرف سے بھی فی الفور ہوگا

دبے آپ سے وہ کوئی اور ہوگا


تم کہتے ہو معشوق اطاعت نہیں کرتے

عاشق بھی تو معشوق کا نوکر نہیں ہوتا


کیا سمجھتے ہو تم اپنے آپ کو 

خوب رویوں سے جہاں خالی نہیں


پوچھے تو کوئی حضرت واعظ سے اتنی بات

ایسے ہی تھے جناب کیا عہد شباب میں

داغ کی ہجرت حیدرآباد

      اردو غزل پر یہ اعتراض ہے کہ وہ زندگی کی کشمکش سے دور رہی ۔ اس میں محبوب کا رنگ روپ تو مل جاتا ہے ، رودادِ حیات کی دھڑکن نہیں ملتی ۔ یہ اعتراض جس حد تک درست ہے اس حد تک محل نظر بھی ۔ عصر حاضری کی غزل کے بارے میں ہم ایسا نہیں کہہ سکتے، کیوں؟ اس لئے کہ اس میں عصر حاضر کے سارے پیچ و خم اور ساری پیچیدگیاں سموئی ہوئی ہیں۔ آج کا غزل گو زندگی اور اس کی ہماہمی کا محض ایک تماشائی نہیں تماشے کا ایک جزو بھی ہے۔ آج کا فن کار زندگی سے بے نیاز اور بے تعلق نہیں رہ سکتا۔ ماضی میں بھی حالات جب بھی اختلال و انتشار کا شکار رہے فن کاران سے متاثر ہوئے اور اپنے کلام میں ان کی ترجمانی کی ہے ۔ داغ نے جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ قلعے میں عیش و عشرت کی پرسکون زندگی گزاری لیکن مرزا فخرو کے انتقال کے بعد گردش زمانہ کا شکار ہوئے ۔انھیں قلعے سے نکلنا پڑا۔ رامپور جانے سے قبل تقریبا ایک سال انھوں نے دہلی میں گزارا 1857 کی قیامت صغری ان کے سامنے ہوئی ہے دلی لٹتی ہے ، ایک تہذیب اجڑتی ہے، ایک معاشرہ بکھرتا ہے ، قدریں مرتی ہیں ، اعتبارات ختم ہوتے ہیں ، امیدیں ٹوٹتی ہیں ۔ داغ اپنی لذت پرستی ، عیش کوشی اور ہوسنا کی کے باوجود اپنے آس پاس سے بے خبر نہیں رہے ۔ دلی کیا لٹی ، ان کا دل لٹا ، ان کا ’’ شہر شوب‘‘ پڑھیے ایک بے قرار اور دردمند دل تڑپتا ، سسکتا دکھائی دے گا۔ داغ کی ایک غزل کا مطلع اسی پس منظر میں ہے ۔ 

غزل کیا ہے دل اور دلی کا مرثیہ ہے:

یوں مٹا جیسے کہ دہلی سے گمان دہلی

تھا مرا نام و نشاں ، نام و نشان دیلی


آسماں پر سے بھی نوحے کی صدا آتی ہے

کیا فرشتے بھی ہوۓ مرثیہ خوان دہلی 


میر و غالب و آزردہ سے پھر لوگ کہاں

داغ اب یہ ہیں غنیمت ہمہ دان دہلی


دہلی کی تباہی پر یہ اشعار بھی دیکھیے :

لوگ کہتے ہیں بنا ، دہلی بگڑ کر لکھنؤ

پر کہاں اے داغ اس اجڑے ہوئے گھر کا جواب


داغ دلی تھی کسی وقت میں یا جنت تھی

سینکڑوں گھر تھے وہاں رشک ارم ، ایک نہ دو


یہ اشعار بھی اس وقت کے عام حالات کی ترجمانی کرتے ہیں :

اے حیات دو روزہ لے آئی

کن گرفتاریوں میں تو مجھ کو

Ugc net urdu syllabus

زندگی اس زمانے کی

ایسے جینے میں کچھ مزہ بھی ہے

داغ کے حالات زندگی

     داغ سچ پوچھیے تو زبان کے شاعر ہیں ۔ زبان کا جتنا فن کارانہ ہنر مندانہ بر محل اور موزوں استعمال داغ نے کیا ہے وہ کسی اور شاعر کے کلام میں نظر نہیں آ تا۔ وہ دبستان دہلی کے آ خری نمائند شاعر تھے۔ انھوں نے رامپور ور حیدرآباد وغیرہ میں بھی اپنی زندگی کا قابل لحاظ حصہ گزارا لیکن لڑکپن میں قلعے میں گزاری ہوئی زندگی کا ان کی شاعری پر گہرا نقش ہے ۔ قلعہ معلی کی اردو ان کے مزاج، ان کی فطرت میں رچ بس گئی تھی ۔ کوثر و تسنیم میں دھلی زبان ضرب الامثال، روزمرہ، محاورے، شستہ و شائستہ لہجہ، داغ کے علاوہ اور کسی کے پاس نہیں ملتا ۔ اس کی داد اور تو اور غالب نے بھی دی ہے ۔ نثار علی شہرت نے " آئینہ داغ " میں لکھا ہے کہ غالب نے کہا: ذوق نے اردو کو اپنی گود میں پالا تھا داغ اس کو نہ فقط پال رہا ہے۔ بلکہ اس کو تعلیم دے رہا ہے ۔ داغ اس میں کوئی شبہ نہیں قلعہ معلی کی اردو، وہاں کے محاورات اور روزمرہ کی افادیت سے بخوبی واقف تھے اور ان کی شاعری کا مشن تھا کہ یہ زبان اور محاورات وغیر ملک گیر سطح پر عام ہوں ۔ ہر چند کہ رام پور پھر حیدرآباد میں قیام کی وجہ سے ان کے لہجے میں کہیں کہیں تبدیلی کا احساس ہوتا ہے لیکن مجموعی طور پر وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے ۔ انھوں نے اس طرح اپنی غزل سے وہ کام لیا جو کسی دبستان سے ممکن تھا۔ داغ زبان کے بارے میں خاص احتیاط سے کام لیتے تھے۔ وہ دہلی کی زبان کو مستند خیال کرتے تھے لیکن اتنی وسیع النظری بھی تھی کہ لکھنو کی زبان کو مسترد نہیں کرتے تھے ہاں اس کو قابل تقلید متصور نہیں کرتے تھے۔ داغ کے پاس کوئی فکر و فلسفہ نہیں تھا اور یہ بھی کہ جذبات و احساسات کے اظہار میں گہرائی نظر نہیں آتی ۔ محبوب کے انداز و ادا اور عشق و محبت کے مختلف پہلوؤں کو انھوں نے نہایت دلکشی کے ساتھ پیش کیا جس میں زبان و بیان کا لطف شامل ہے اور پھر یہ کہ آزاد اور حالی نے نظم نگاری کو فروغ دیا جس کی وجہ سے غزل پس پشت پڑ گئی تھی ۔ داغ نے اپنے طور پر سنبھالا دیا۔ آج اردو غزل میں جو بانکپن اور طرح داری و وزن و وقار ہے اس میں داغ کا حصہ قابل لحاظ ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے