Ad

ولی دکنی کی غزل میں عشق مجازی

 

ولی دکنی کی غزل میں عشق مجازی





ولی دکنی کی غزل میں عشق مجازی


مجازی عشق کا بیان ولی نے پوری فن کاری اور مہارت کے ساتھ کیا ہے۔ اپنے محبوب کی تعریف اور اس کی سراپا نگاری انھوں نے جس انداز سے کی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ولی کی جمالیاتی حس بہت شدید ہے۔ ان کے کلیات کے بیش تر اشعار ایسے لطیف اور تیز احساس جمال کی تصویر پیش کرتے ہیں جس کی مثالیں اردو شاعری میں بہت کم ہیں۔ اس احساس جمال نے انھیں اردو کا سب سے بڑ اسراپا نگار بنادیا ہے۔ںاشعار بہ طور مثال درج کیے جار ہے ہیں:


ولی دکنی کی شاعری


قد ترا رشک سرو رعنا ہے

 معنی نازکی سراپا ہے 


تجھ بھواں کی میں کیا کروں تعریف

 مطلعِ شوخ و رمز ہے ایما ہے


چمن حسن میں نگہہ کر دیکھ

 زلف معشوق عشق پیچاں ہے


 کیوں نہ مُج دل کو زندگی بخشے

 بات تیری دم مسیحا ہے


 سُنبل اس کی نظر مے جا نہ کریں

جس کوں تجھ گیسوؤں کا سودا ہے


 اس کے پیچ اں کا کچھ شعار نئیں

زلف ہے یا یہ موج دریا ہے



ولی ایک غزل میں لکھتے ہیں:

ترا مکھ ہے چراغ دل ربائی

عیاں ہے اس میں نور آشنائی 


 لکھا ہے تُج قد اُپر کاتب صنع 

سراپا معنی نازک ادائی


تو ہے سر پاؤں لگ از بس کہ نازک 

نگہہ کرتی ہے تجھ پگ کوں حنائی


تری انکھیاں کی مستی دیکھنے میں 

گئی ہے پارسا کی پارسائی 



ولی دکنی کی غزل میں عشق مجازی


 مقامی روایات والفاظ کے استعمال کے ساتھ حسن کا بیان ملاحظہ ہو :


کوچہ یار عین کاسی ہے

جوگی دل وہاں کا باسی 


اے صنم تجھ جبیں اُپر یہ خال

ہندوئے ہردوار باسی ہے


زلف تیری ہے موج جمنا کی

تل نزک اس کے جیوں سناسی ہے


یہ سیہہ زلف تجھ زنخداں پر

ناگنی جیوں کنوے پی پیاسی ہے



فارسی ادب کی خوشی چینی کے ساتھ حسن کی تصویر کشی دیکھئے :



تیرا مُکھ مشرقی ہے حسن انوری ہے جلوہ جمالی ہے

نین جامی ہے جبیں فردوسی ہے ابرو ہلالی ہے


ریاضی فہم و گلشن طبع و دانا دل ، علی فطرت

زُباں تیری فصیح ہے سخن تیرا ذلالی ہے


 نگہہ میں فیضی و قدسی سرشت طالب و شیدا

کمالِ بدر دل اہلی و انکھ یاں سو غزالی ہے


 تو ہی ہے خسروِ روشن ضمیر و صاحب شوکت 

ترے ابرو یہ مجھ بیدل کوں طغراۓ وصالی ہے


اپنے محبوب کے بارے میں ولی ایک مقام پر لکھتے ہیں:

 جگ میں دوجا نہیں ہے خوب رو تجھ سار کا 

چاند کو ہے آسماں پر رشک تجھ رخ سار کا

جب سوں تیری زلف کوں دیکھا ہے زاہد اے منم

ترک کر مسجد_کوں ہے مشتاق تُج زِنار کا


ایک غزل میں اس طرح رقم طراز ہیں:

طالب نہیں مہر و مشتری کا 

دیوانہ ہوا جو تجھ پری کا


تجھ تل سوں اے آ فتاب طلعت

ممنون ہوں ذرہ پروری کا


كفار فرنگ کوں دیا ہے

تجھ زلف نے درس کافری کا 


توں سرسوں قدم تلک جھلک میں

 گویا ہے قصیدہ انوری کا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے