ugc net urdu syllabus
مرزا داغ دہلوی کا تعارف
Daag dehlvi biography in urdu
گذشتہ اکائی میں ہم نے اردو کے عظیم شاعر شیخ محمد ابراہیم ذوق کی حیات اور شاعری کے بارے میں تفصیل سے واقف کرایا۔ دو اشعار کا مطلب اور ذوق کی حیات اور شاعری کے بارے میں خلاصہ بھی دیا گیا۔ یہ اکائی اردو کے ایک ممتاز شاعر داغ دہلوی کے بارے میں ہے۔ اس اکائی میں ہم نے داغ کی حیات کے بارے میں بتائیں گے۔ ان کی غزل گوئی کا جائزہ لیا جائے گا۔ آپ داغ کی چار غزلوں کا مطالعہ کریں گے۔ بہ طور نمونہ دو اشعار کی تشریح پیش کی جائے گی ۔ اور اس اقتباس کا خلاصہ بھی پیش کریں گے۔
داغ کے حالات زندگی
مغل سلطنت کا آفتاب غروب ہوا چاہتا تھا۔ یہ عظیم الشان سلطنت اپنی زندگی کی آخری گھڑیاں گن رہی تھی۔ سلطنت کا خاتمہ نوشتۂ دیوار تھا۔ بنیادیں کمزور ہوچکی تھی۔ بادشاہ سلامت کا اقتدار سمٹ چکا تھا۔ رعیت جذباتی طور پر لال قلعہ اور دہلی کی حکومت سے تعلق خاطر رکھتی تھی۔ ورنہ سب جانتے تھے کہ کل کیا ہوگا۔ ایسے دگر گوں حالات میں دہلی میں 25 مئی 1831ء کو والی فیروز پور جھروکہ نواب شمس الدین خاں سے چھوٹی بیگم کے ایک لڑکا پیدا ہوا جو آگے چل کر جہاں استاد ، ناظم یار جنگ ، دبیر الدولہ ، بلبل ہندوستان نواب فصیح الملک مرزا خاں داغ دہلوی کہلایا۔ داغ کا نام یوں تو ابراہیم رکھا گیا تھا لیکن جب بڑے ہوئے انھوں نے اپنا نام بدل کر نواب مرزا خاں رکھ لیا۔ دہلی کے ریذیڈنٹ ولیم فریزر اور نواب شمش الدین خاں میں کسی نہ کسی وجہ سے شدید اختلافات پیدا ہوگئے۔ نواب صاحب نے اپنے ملازم کریم خاں کے ذریعے فریزر کا قتل کرا دیا۔ بات ظاہر ہوگئی۔ نواب صاحب پر مقدمہ چلا اور 13 اکتوبر 1835ء کو انہیں پھانسی دے دی گئی۔ اس وقت داغ کی عمر چار سال اور چار مہینے تھی۔ شمس الدین خاں نے چھوٹی بیگم سے چونکہ با ضابطہ شادی نہیں کی تھی اس لیے وہ ورثے کے لیے دعویٰ بھی نہ کرسکیں ۔ نواب صاحب کے انتقال پر چھوٹی بیگم اچانک بے سہارا ہوگئیں ۔ وہ حسن و جمال کا پیکر تھیں ہی، شمس الدین خاں کے انتقال کے بعد ان کے سوتیلے بھائی نواب ضیاءالدین احمد خاں بہادر، نیر درخشاں کی نظرِ انتخاب چھوٹی بیگم پر پڑی ۔ وہ نواب صاحب کے گھر آ گئیں ۔ چند برس ان کے یہیں گز رے۔ پھر چھوٹی بیگم آغا تراب علی نامی ایک شخص کے ساتھ رہنے لگیں ۔ آغا تراب علی سے آ غا مرزا شاغل پیدا ہوئے۔ چھوٹی بیگم کے حسن کے چرچے قلعۂ معلی تک پہنچے ۔ مرزا محمد سلطان فتح الملک بہادر، ولی عہد شاہ دہلی بہادر شاہ ظفر المعروف بہ مرزا فخرو، ان کے دام الفت میں گرفتار ہوۓ اور 1844ء میں چھوٹی بیگم سے باضابطہ نکاح کرلیا۔ داغ کی عمر اس وقت کوئی 14 برس ہوگی ۔ یوں داغ قلعے میں داخل ہوئے اور پہلی جنگ آزادی 1857 ء سے کچھ پہلے تک قلعے ہی میں رہے ۔ داغ کی تربیت میں اور ان کے ادبی مزاج کی تہذیب میں قلعہ معلیٰ کا بڑاحصہ رہا ہے ۔ داغ نے قلعے ہی میں اپنے زمانے کے مروجہ علوم میں دستگاہ حاصل کی ۔ غلام حسین شکیبا کے صاحبزادے مولوی سید احمد حسین سے فارسی اور درسی کتابیں پڑھیں، اپنے دور کے ممتاز خوش نویس سید امیر پنجہ کش دہلوی اور ان کے شاگرد سید امیر سے خوش نویسی میں مہارت حاصل کی اور اس کے ساتھ مرزا عبیداللہ بیگ سے بانک، مرزا سنگی بیگ سے پھیکتی اور سجن خاں اور بندو خاں سے گھڑ سواری سیکھی ۔ مرزا فخرو داغ کو کچھ اتنا عزیز رکھتے تھے کہ تیر اندازی ، چورنگ اور بندوق لگانا خود انھوں نے سکھایا اور داغ بہ تدریج ان فنون میں طاق ہوگئے ۔ داغ کی عمر 25 سال کی تھی کہ 10 جولائی 1856ء کو مرزا فخرو ہیضے کا شکار ہوگئے اور اچانک ان کا انتقال ہوگیا ۔ گویا داغ اور ان کی والدہ ، دونوں کی دنیا لٹ گئی، دونوں قلعہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ چھوٹی بیگم کا اگست 1879 میں غالباََ رامپور میں
انتقال ہوا
اپنی خالہ عمدہ بیگم کی صاحبزادی فاطمہ بیگم کے ساتھ داغ کی شادی اس وقت ہوئی جب داغ کی عمر 15 سال تھی ۔ عمدہ بیگم کا تعلق چونکہ صرف رامپور کے نواب یوسف علی خاں ناظم سے رہا اس لیے فاطمہ بیگم نواب یوسف علی خاں کی صاحبزادی تھیں ۔ نواب رامپور یوسف علی خاں سے اپنی خالہ کے رشتے سے داغ ابتداء سے واقف تھے ۔ اس تعلق سے وہ پہلی جنگ آزادی 1857ء کی ناکامی کے بعد اپنی خالہ، اپنی ماں چھوٹی بیگم اور سو تیلے بھائیوں کے ساتھ اکتوبر یا نومبر 1857ء میں دہلی سے رامپور پہنچے۔ یہاں یوسف علی خاں نے داغ کو اپنے مہمان کی طرح رکھا ۔ ان کی بڑی آؤ بھگت کی ۔ رام پور میں داغ کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام انھوں نے احمد مرزا رکھا لیکن بچپن ہی میں اس کا انتقال ہوگیا ۔ داغ کو اس کا بڑا افسوس رہا ۔ بعض کے خیال میں احمد مرزا ان کے رشتے کے بھائی کا لڑکا تھا ۔ یوسف علی خاں کی زندگی میں داغ رامپور میں ملازم نہ ہوسکے ۔ 21 اپریل 1865ء کو نواب صاحب کے انتقال کے بعد نواب کلب علی خاں مسند نشین ہوئے۔ داغ خاص طور پر اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کے باعث نواب کلب علی خاں کا دل جیت چکے تھے ۔ چنانچہ نواب نواب صاحب نے 17 اپریل 1866ء کو داغ کو زمرۂ مصاحبین میں شامل کیا ، تھوڑی بہت انتظامی ذمہ داریاں بھی سپرد کی اور ستر روپے ماہوار تنخواہ مقرر کی ۔ یہی زمانہ ہے جب داغ منی بائی عشق میں گرفتار ہوئے ۔
مارچ 1881ء میں بے نظیر کا مشہور میلہ ہوا۔ اس میں کلکتے کی ایک طوائف منی بائی سے داغ کا سامنا ہوا اور داغ دل وجان سے اس پر فدا ہوگئے اور اپنی وفات سے دو تین سال قبل تک بھی داغ کے منی بائی سے مراسم رہے لیکن ان مراسم میں شیرنی کم اور تلخی زیادہ تھی ۔ 22 مارچ 1887ء کو نواب کلب علی خاں کا انتقال ہوگیا۔ نواب مشتاق علی خاں تخت نشین ہوئے ۔ لیکن انھیں نہ تو شعر و ادب سے دلچسپی تھی ا قیام زیادہ تر ان کے شاگردوں کے پاس رہا لیکن مالی آسودگی فراہم نہ ہوسکی۔
0 تبصرے