غواصی کی غزل گوئی
موجودہ معلومات کی روشنی میں غواصی ایک بلند پایہ غزل گو، بے مثال مثنوی نگار اور باکمال قصیدہ گو کی حیثیت سے سامنے آتا ہے۔ اس کی تین مثنویاں 1 مینا ست و نتی، 2 سیف الملوک و بدیع الجمال، 3 طوطی نامہ اس کے علاوہ غزلوں، قصیدوں، رباعیوں، مرثیوں، اور موضوعاتی نظموں پر مشتمل دیوان بھی شائع ہو چکا ہے ۔ غواصی نے اپنے کلام میں نہ کسی پیش روشاعر کا تذ کر کیا ہے اور نہ کسی ہم عصر شاعرکو وہ اپنا مد مقابل سمجھتا ہے جب کہ دکنی اردو
کے دیگر بلند پایہ شاعروں نے اپنے کلام میں گزرے ہوئے یا ہم عصر شاعروں کا ذکر نہ صرف بڑی عزت واحترام سے کیا ہے بلکہ ان کو کامل الفن اور اپنا استاد سخن بھی کہا ہے ۔ جیسے محمد قلی قطب شاہ اور وجہی نے اپنے پیش رو اساتذۂ سخن کی حیثیت سے فیروز اور محمودکو یاد کیا ہے ۔ یہی حال ابن نشاطی کا ہے جس نے اپنی مثنوی’’پھول بن‘‘ میں دکنی اردو کے چار بلند پا یہ شعرا ء فیروز، سیدمحمود، ملا خیالی اور شیخ احمد کا ذکر بڑی عزت و احترام کے ساتھ کیا ہے ۔خود غواصی کو اس کے ہم عصر شعرا میں مقیمی اور نصرتی نے اور زمانۂ مابعد کے سخن وروں میں غوثی بیجا پوری، عشرتی، سید اعظم اورفراقی بیجا پوری وغیرہ نے غواصی کو اپنے کلام میں استاد سخن کی حیثیت سے یادکیا ہے ۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ غواصی نے کسی کی شاگردی اختیار نہیں کی ۔
عبداللہ قطب شاہ کے دور میں غواصی کی قسمت کا ستارہ چمک اٹھا۔ اس بادشاہ نے اسے نہ صرف اپنے در بارکا ملک الشعر امقر ر کیا اور 1635 ء میں اپنے سفیر کی حیثیت سے پیجا پور روانہ کیا بلکہ فصاحت آثار کے خطاب سے بھی نوازا۔
ہزار شکر کہ خوش ہو کے یہ شہہ عارف
خطاب منج کوں دیا ہے ’’ فصاحت آثاری‘‘
غزل در غزل، آزاد غزل ، شمالی ہند میں غزل کا ارتقاء، غزل کی تاریخ
ڈاکٹر محمد بن عمر نے غواصی کے کلیات کو 1959 ء میں مرتب کرکے ادارۂ ادبیات اردو (حیدر آباد) کی جانب سے شائع کیا تھا جس میں 21 قصائد، 14 رباعیات، 2 مختصر مثنویاں، 2 مراثی، اور ایک ترکیب بند کے علاوہ 129 غزلیں، 19 نظمیں اور 9 ریختیاں شامل ہیں۔ غواصی نے محمد قلی کی طرح غزل کی ہئیت ( FORM ) کو بڑے پیمانے پر عشقیہ ( LYRICAL ) اور بیانیہ ( DESCRIPTIVE ) دونوں قسم کی شاعری کے لئے برتا ہے۔ ہر جگہ مطلع، مقطع اور قافیہ ردیف کی پابندی کی ہے۔ البتہ موضوعات میں کہیں ربط و تسلسلِ بیان پایا جاتا ہے، عنوان دے کر نظم کے دائرے میں داخل کردیا ہے۔ حالانکہ غواصی کے قلیمی دیوان میں کہیں بھی عنوانات نہیں ملتے۔ خود غواصی بھی محمد قلی کی طرح ان تخلیقات کو غزل ہی کہتا ہے۔ چنانچہ اس کی ایک نظم ( غزل ) " بادشاہ کی سیر بھونگیر " کا مقطع ہے :
غواصی ذوق پا اکثر جو بولیا یوں غزل خوش کر
دیا کی دھر نظر شہہ پر مدد حضرت امیر اہے
کلیات غواصی
اگر کلیات غواصی کی اس قبیل کی نظموں اور ریختیوں کو غزلوں میں شمار کریں تو اس کی غزلوں کی تعداد 157 ہوجاتی ہے ۔اس کے علاوہ راقم الحروف نے’’ غواصی شخصیت اورفن‘‘ اور " دکنی شاعری تحقیق وتنقید " میں اس کی علی الترتیب 20 اور 29 غیر مطبوعہ غزلیں مرتب کر کے شائع کی ہیں ۔اس طرح غواصی کی جملہ غزلوں کی تعداد 206 ہو جاتی ہے ۔اگر چہ تعداد اور مضامین کے تنوع کے اعتبار سے غواصی کی غزلیں، محمد قلی کی غزلوں کی ہم پلہ نہیں لیکن جہاں تک سادگی بیان، تاثر کی فراوانی اورسوز و گداز کا تعلق ہے، دکنی اردو کا کوئی شاعر غواصی کے مرتبے کو نہیں پہنچتا۔ پروفیسر غلام عمر خاں لکھتے ہیں:
عام قاری کے لیے زبان کی قدامت، غواصی کے کلام سے لطف اندوز ہونے میں حائل ہے ورنہ جہاں تک صنف غزل کا تعلق ہے، تغزل و سرمستی، جذبات کا سوز و گداز، زبان و بیان کی بے ساختگی اور لطافت شفتگی، بحروں کا ترنم، اشعار کی نغمگی اور موسیقیت، یہ وہ خصوصیات ہیں جہاں غواصی عہد حاضر کے مقبول متغزلین حسرت اور جگر کے مقابلے میں بھی منفرد اور ممتاز نظرآ تا ہے ۔اس کی بعض غزلیں جو علوۓ جذبات، بلند آ ہنگی، کیف و مستی، سرخوشی و سرشاری اور شعور ذات کی رفیع جمالیاتی کیفیات کی عکاسی کرتی ہیں، غالب، حافظ اور خسرو کی اسی رنگ و آہنگ کی غزلوں کی ہم پایہ ہیں ۔‘‘ (غواصی شخصیت اورفن صفحہ 10 )
غزل قصیدہ اور رباعی، اردو اقتباس، اردو شاعری، ugc net urdu syllabus، سیف الملوک و بدیع الجمال، مینا ست ونتی، طوطی نامہ، غواصی کی غزل گوئی، فصاحت آثار،
0 تبصرے