Ad

میر تقی میر کی صوفیانہ شاعری

میر-تقی-میر-صوفیانہ-شاعری

 میر تقی میر کی صوفیانہ شاعری

Meer Taqi Meer shayari urdu

میر کی شاعری میں متصوفانہ خیالات و تجربات کا بھی نمایاں طور پر اظہار ملتا ہے ۔ تصوف نے انھیں خالق و مخلوق کے رشتوں کا احساس دلایا۔ انھیں بچپن ہی سے صوفیانہ ماحول ملا تھا ۔ ان کے والد اور منھ بولے چچا دونوں ان کو دنیوی خواہشات سے کنارہ کش ہوکر اپنے من میں ڈوبنے کی تعلیم دیتے رہے ، چنانچہ خود آگہی، قناعت اور استغراق ان کی طبیعت کا خاصہ بن گئے ۔ وہ بعض فکری میلانات کا اظہار کرنے لگے اور زندگی موت اور کائنات کے مسائل پر غور و فکر کرتے رہے۔

     صوفی سلوک کی مختلف منزلوں سے گز رکے فنا فی اللہ ہو جاتا ہے ۔ یعنی وہ ازلی حقیقت کا حصہ بن جا تا ہے ۔ حامد کاشمیری میر پر اپنی کتاب "کار گہہ شیشہ گری " میر کا مطالعہ ، میں لکھتے ہیں :

     " میر صوفی تھے ،  بلکہ یہ ہنا چاہیے کہ وہ صوفیانہ رنگ میں پوری طرح رنگے ہوئے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ میر درد کی طرح عملی اور ہمہ وقتی صوفی نہ تھے " ۔ ان کے نزدیک دل نسخۂ تصوف ہے، جسے سمجھنے کی ضرورت ہے :

دل عجب نسخہ ' تصوف ہے

 ہم نہ سمجھے بڑا تاسف ہے

Meer Taqi Meer selected urdu poetry

میر صوفی کے مانند اپنی شاعری میں تصوف کے مختلف پہلو ابھار تے ہیں:


یہ توہم کا کارخانہ ہے 

یاں وہی ہے جو اعتبار کیا


اپنی ہی سیر (تفریح )کرنے ہم جلوہ گر ہوئے تھے

اس رمز (اشارہ) کو وہ لیکن معدود جانتے ہیں


ہستی اپنی ہے بیچ میں پردہ 

ہم نہ ہو ویں تو پھر حجاب کہاں

Meer Taqi Meer poetry

انسان کو جیتے جی موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میر کے خیال میں موت ایک ناگزیر، سفاک اور اٹل حقیقیت ہے :


اے عدم میں جانے والو ، تم تو چلو

ہم بھی اب کوئی دم میں آتے ہیں


     اس میں شبہ نہیں کہ موت کی غارت گری ہر چیز کو بے معنی بناتی ہے اور وہ درد و غم کا پیکر بن جاتے ہیں ۔انھیں زندگی اور حسن کی بے ثباتی کے غم میں گھرے رہنے سے بعض نقاد انھیں قنوطی شاعر قرار دیتے ہیں ۔مولوی عبدالحق لکھتے ہیں: 

     " میر کے دل سے جب کوئی بات نکلی،  وہ یاس و ناکامی میں ڈوبی ہوئی تھی ۔‘‘(انتخاب کلام میر )


 مجنوں گورکھپوری کا خیال ہے کہ

     ’’وہ یاس پرست تھے ان کی شاعری پر قنوطیت چھائی ہوئی تھی‘‘


     میر کوقنوطی اور یاس پرست قرار دینا درست نہیں۔ سردار جعفری نے اپنی کتاب میں میر کو قنوطی قرار دینے سے انکار کیا ۔ زیادہ سے زیادہ ان کی غم پسندی کوز ندگی کے المیے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ ان کے یہاں نشاط و سرخوشی کے احساسات بھی ہیں ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے