غزل پر حالی کے اعتراضات، اصلاحی تجاویز اور بعد کی غزل پر ان کے اثرات
Gazal par haali ke aetrazaat, islahi tajaweez or baad ki gazal par unke asraat
سر سید علی گڈھ تحریک کے اثر سے اردو ادب کی تمام اصناف میں تبدیلی آرہی تھی اور نئی اصناف کا اضافہ ہورہا تھا ۔ اس تحریک کے پیش نظر وقت کا اہم تقاضا علم کی ترویج اور معاشرے کی اصلاح تھا۔ اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے حالی اور آزاد نے غزل کو اپنی تنقید کا ہدف بنایا ، نظم کی تحریک چلائی اور نیچرل شاعری کا تصور پیش کیا ۔
حالی کے زمانے میں غالب، مومن و ذوق کے بعد میں غزل کا انحطاط ہونے لگا تھا۔ خیالات میں رکاکت بڑھ رہی تھی، لفظ پرستی اور صنعت نگاری کا رجحان عام تھا ۔ فن پر مہارت جتانے کے لئے مشکل زمینیں ایجاد کی جاتی تھیں۔ عاشقانہ مضامین میں اصلیت کم تھی، انہیں مضامین کی تکرار کی جارہی تھی جو قدما باندھ چکے تھے ۔ خمریات شاعری میں محض ضیافت طبع کے لئے زاہدوں اور عابدوں پر پھبتیاں کسی جاتی تھیں۔ انھیں قباحتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے حالی نے غزل کی اصلاح کے لئے تجاویز پیش کیں۔
اردو کی اصناف سخن میں حالی غزل کو اہمیت دیتے تھے کیوں کہ یہ بہت مقبول صنف تھی۔ غزل کے اشعار آسانی سے یاد ہو جاتے ہیں اور مختلف موقعوں پر اپنی بات کی تائید میں بطور سند پیش کیے جاتے ہیں ۔ غزل ہر محفل میں گائی جاتی ہے خواہ وہ سماع کی مجلس ہو یا لہو لعب کی صحبت۔ اس لئے حالی نے سوچا کہ قومی مذاق کو سدھارنے اور اخلاق کی تربیت کے لئے غزل ایک غزل ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔
غزل کی اصلاح کے لئے حالی کی پیش کردہ چند تجویز
حسب ذیل ہیں
1 : غزل میں عشقیہ مضامین ایسے الفاظ میں باندھے جائیں جو دوستی اور محبت کی تمام قسموں پر حاوی ہوں۔ ایسے الفاظ نہ استمعال کیے جائیں جن سے محبوب کا مرد یا عورت ہونا ظاہر ہو ۔
2 : زاہدوں ، عابدوں پر محض تفریح کے لئے پھبتیاں کسنا مناسب نہیں، خمریات کے پیرائے میں استعارے اصل خیالات کے اظہار کے لیے استمعال کیے جاسکتے ہیں ۔
3 : غزل کو عشق و محبت تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ زندگی کے مشاہدوں اور تجربوں سے غزل کے مضامین میں وسعت پیدا کرنی چاہیے۔
4 : طویل مضامین کے لئے غزلِ مسلسل سے کام لیا جاسکتا ہے
5 : غزل میں سادگی اور صفائی کا خیال رکھا جائے۔
6 : نئے اسلوب کم اختیار کیے جائیں۔ غیر مانوس الفاظ کم برتے جائیں۔ نا معلوم طور پر ان کو رفتہ رفتہ بڑھاتے رہیں۔
7 : روز مرہ کی پابندی کی جانی چاہیے ۔ محاورہ زبان میں چاشنی ضرور پیدا کرتا ہے لیکن محض محاورہ باندھنے کے لئے شعر کہنا مناسب نہیں۔
8 : صنائع بدائع پر شعر کی بنیاد نہیں رکھنی چاہیے ۔ اگر از خود کوئی صنعت شعر میں آ جائے تو اس سے شعر کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے۔
9 : مشکل زمینوں میں شعر کہنے سے احتراز کیا جائے۔ ردیف اور قافیہ میں مناسبت ہونی چاہیے۔ بہتر ہے کہ غیر مردّف غزلیں کہی جائیں۔
حالی خود غزل کے اچھے شاعر تھے جس کا اندازہ ذیل کے اشعار سے ہوگا
آگے بڑھے نہ قصۂ عشقِ بتاں سے ہم
سب کچھ کہا مگر نہ کھلے رازداں سے ہم
ہے جستجو کے خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب دیکھئے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں
بے قراری تھی سب امیدِ ملاقات کے ساتھ
اب وہ اگلی سی درازی شبِ ہجراں میں نہیں
یارانِ تیز گام نے محمل کو جا لیا
ہم محوِ نالۂ جرسِ کارواں رہے
حالی کے اعتراضات کو سامنے رکھتے ہوئے شعرائے لکھنؤ (ثاقب ، عزیز وغیرہ) نے پرانی روش ترک کرکے میر اور غالب کی تقلید میں نئے انداز کی غزلیں کہیں لیکن وہ بڑے پائے کے شاعر نہ تھے ۔ بعض شاعروں نے عمدہ شعر بھی کہے ہیں جو غزل کے سرمائے میں اضافہ ہیں :
آئینہ جس میں سدا ڈوب کے ابھرا کیا حسن
ایک ٹھیرا ہوا پانیب ہے خود آرائی کا
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے
ثاقب لکھنوی
ہے ان کی بزم میں ہر شخص اپنے عالم میں
کسی کا راز کسی پر عیاں نہیں ہوتا
عزیز لکھنوی
اسی زمانے میں حسرت نے غزل کا انداز بدلا۔ انھوں نے عشقیہ شاعری میں ارضیت پیدا کی اور عشق کے حقیقی جذبات اور تجربات کا غزل میں اظہار کیا اور غزل کو ایک نئے غنائی آہنگ سے روشناس کیا۔
حسرت کے معاصر غزل گو شاعروں فانی، اصغر، یگانہ، جگر، شاد عظیم آبادی، چکبست اور آرزو نے غزل کو نیا وقار عطا کیا۔ ان شعرا کی غزل میں محبوب کا روایتی تصور بدل گیا۔ غزل سے طوائف کا اخراج عمل میں آیا۔ ان شعرا کی محبوبہ گوشت پوست کی عورت تھی جو خود بھی صاحب دل تھی۔ ان شعرا نے روایتی انداز میں محبوب کی بے وفائی، ظلم اور قتل و غارت گری کا چرچا نہیں کیا۔ ان کی شاعری میں یہ استعارے ضرور آئے ہیں لیکن دبستان لکھنو کے شاعروں کی طرح انھوں نے استعارے کو سادہ لفظ میں نہیں بدلا۔ ان شاعروں نے انسان کے وجودی مسائل، حیات و مقاصدِ حیات سے تعلق رکھنے والے سوالات پر غور و فکر کیا اور غزل کو اپنے مکاشفات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ ان غزل گو شاعروں کی قدر و قیمت اور ان کے منفرد اسالیب کا جائزہ لینے کی گنجائش نہیں ہے ان کے چند منتخب اشعار پیش کیے جاتے ہیں :
تمناؤں میں الجھا یا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
شاد عظیم آبادی
شعبدے آنکھوں کے ہم نے ایسے کتنے دیکھے ہیں
آنکھ کھلی تو دنیا تھی بند ہوئی افسانہ تھا
فانی بدایونی
آنکھوں کے انتظار سے گرویدہ کر چلے
تم یہ تو خوب کارِ پسندیدہ کر چلے
حسرت موہانی
ادھر سے بھی ہے سوا ادھر کی مجبوری
کہ ہم نے آپ تو کی ان سے آہ بھی نہ ہوئی
جگر مرادآبادی
کہانی میری روداد جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
سیماب اکبر آبادی
اس طرح زمانہ کبھی ہوتا نہ پر آشوب
فتنوں نے ترا گوشۂ داماں نہیں دیکھا
اصغر گونڈوی
زندگی نام تھا جس کا اسے کھو بیٹھے ہم
اب امیدوں کی فقط جلوہ گری باقی ہے
چکبست
امید و بیم نے مارا مجھے دو راہے پر
کہاں کے دیر و حرم گھر کا راستہ نہ ملا
یگانہ
اول شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی
رات کے آخر ہوتے ہوتے ختم تھا یہ افسانہ بھی
آرزو لکھنوی
0 تبصرے