Ad

ولی دکنی کے کلام میں تصور عشق

 

ولی دکنی کے کلام میں تصور عشق



ولی دکنی کے کلام میں تصور عشق


اس تصور عشق کے ذریعے ولی تصوف کی روایت کو اپنے موضوعات کے پھیلاؤ اور کم و بیش ساری علامات کے ساتھ اردو شاعری کے دامن میں جگہ دیتے ہیں اور ایک نئے لہجے اور زندہ آوازوں سے ان میں ایک ایسا رنگ بھر دیتے ہیں کہ ولی کے اس قسم کے اشعار کے مطالعے کے بعد ان کا صوفی کامل ہونا ثابت ہو جا تا ہے۔


عیاں ہر طرف عالم میں حسن ہے بے حجاب اس کا 

بغیر از دیدۂ حیراں نئیں جگ مے نقاب اس کا


عشق میں لازم ہے پہلے ذات کو فانی کریں

ہو فنا فی اللہ ہمیشہ (دائم) ذات یزدانی کریں


 سجن کے باج عالم میں دگر نئیں

  ہمیں میں ہیں ولے ہم کوں خبر نئیں


عجب ہمت ہے اس کی جس کو جگ میں

بغیر از یار دوجے پر نظر نئیں


 ہر ذرۂ عالم میں ہیں خورشید حقیقی 

یوں بوجھ کے بلبل ہوں ہر ایک غنچہ وہاں کا


خودی سے اولاً خالی ہو اے دل

اگر اس شمع روشن کی لگن ہے


 کہہ وی ہے اہل دل نے یہ بات مجھ کو دل سے

عارف کا دل بغل میں قرآن بے کلی ہے


 نشانی حق کے پانے کی جگت کی بے نیازی ہے 

کشاکش کام اپنے کی جگت کی کار سازی ہے


نکال خاطر فاتر سو جامِ جم کا خیال

صفا کر آئینہ دل کا سکندری یو ہے


ولی دکنی کے کلام میں تصور عشق


     تصوف و عرفان کے ساتھ ولی کے پاس زندگی کے اعلی مقاصد اور دنیاوی زندگی کی بے ثباتی کا ذکر ملتا ہے ۔ ظاہر پرستی، نمود و نمائش سے نفرت کا اظہار صداقت کی تعلیم، خوش خصلتی، تسلیم و رضا پا کبازی وصبر کی تلقین پائی جاتی ہے۔ لکھتے ہیں :



غفلت میں وقت اپنا نہ کھو ہوشیار ہو ہوشیار ہو 

 کب لگ رہے گا خواب میں بیدار ہو بیدار ہو


گر دیکھنا ہے مدعا اس شاہد معنی کا رو 

ظاہر پرستاں سے ہمیشہ (سدا) بیزار ہو بیزار ہو


دمِ تسلیم سو باہر نکل نا سو قباحت ہے 

نہ دھر اس دائرے سوں ایک دم باہر چرن ہرگز


عشق کے رمز سوں نہیں آ گاہ 

کیا ہوا توں کیا کتاباں جمع


اے بے خبر اگر ہے بزرگی کی آرزو

دنیا کی رہ گزر میں بزرگوں کی چال چال


 ولی کوں نہیں مال کی آرزو 

خدا دوست نئیں دیکھتے زر طرف


اے ولی تیغ غم سے خوف نہیں 

خاکساری بدن پہ جوشن ہے


اسباب سے جہاں کے ہوں بے غرض سدا میں 

بن تیل اور بتی ہے روشن چراغ میرا


یوں بات عارفاں کی سنوں دل سے سالکاں 

دنیا کی زندگی ہے یہ وہم و گماں محض 


ولی منزل عاقبت میں ترا

نہیں کوئی حسن عمل بن رفیق

        


     ولی نے انسانی زندگی کی حقیقت سادگی اور صفائی کے ساتھ بیان کی ہے۔ دولت سب کچھ نہیں لیکن بہت کچھ ہے ولی کہتا ہے 


مفلسی سب بہار کھوتی ہے

مرد کا اعتبار کھوتی ہے 


باعث رسوائی عالم ولی

مفلسی ہے مفلسی ہے مفلسی ہے


فلسفۂ محبت کا بیان ولی نے اس طور پر کیا ہے :


ہر اک وقت مجھ عاشق زار کوں

پیارے تری بات پیاری لگے


محبت کبھی بھی اور کسی کو بھی ہوسکتی ہے :


عشق کے ہاتھ سوں ہوئے دل ریش 

جگ میں کیا بادشاہ کیا درویش


عاشق کبھی اکیلا نہیں رہتا کیوں کے اس کے ساتھ ؛


اک گھڑی تجھ ہجر میں اے دل ربا تنہا نہیں 

مونس و دم ساز میری آہ ہے فریاد ہے



ولی کی صوفیانہ شاعری، ولی کی عشقیہ شاعری، عشق اور عقل، ولی کی غزل، ولی کے کلام میں تصور عشق، ولی دکنی کی عشقیہ شاعری پر مضمون، تصور عشق پر شاعری، 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے