Ad

محمد قلی قطب شاہ انتخاب کلام

 

محمد قلی قطب شاہ انتخاب کلام

انتخاب کلام

غزل 1

پیا باج پیالہ پیا جائے نا

پیا باج یک تل جیا جائے نا

کہے تھے پیا بن صبوری کروں

کھیا جائے اما کیا جائے نا

نہیں عشق جس وہ بڑا کوڑ ہے

کدھیں اس سوں مل بیسیا جائے نا

قطب شہہ نہ دے مجھ دوانے کو پند

دوانے کوں کچ پند دیا جائے نا



غزل 2

خبر لیایا ہے ہد ہد میرے تئیں اس یار جانی کا

خوشی کا وقت ہے ظاہر کروں راز نہانی کا 

دو تن افسروں کے بارے تھے ہمن کوں کچ نہیں ڈر ہے

ہمارے دیوے کوں ہے روشنی صاحب قرآنی کا

خدا کا شکر ہے تج سلطنت تھے کام پایا ہوں

دندے دشمن کے مکھ پر پیوتا مے ارغوانی کا

ہمیں ہیں عشق کے پنتھ میں دونو عالم تھے بے پروا

لگیا ہے داغ دل پر سو اس ہندوستانی کا 

پڑے دنبال میں میرے سوا اس نیناں کے دنبالے

خدایا عشق مشکل ہے بھرم رکھ توں معافی کا 

غزل 3


ساقیا آ شراب ناب کہاں

چند کے پیالے میں آفتاب کہاں

سوکے دیکھو کتے ہیں ساجن کوں

ولے میرے نین کوں خواب کہاں 

او کنّول مکھ میں نیر ہے سنّپور

اس کے انگے تنگ سراب کہاں



غزل 4

گلے ہاتھ دے کھیلے ناریاں سو کھیل

جاؤں کھیلے پیو او سرافراز ہے

اَدھر رنگ بھرے سہتے مانک نمن

کہ یاقوت رنگ ان تھے و رساز ہے

سنوارے ہیں مجلس پیا روپ سوں

مدن مطرب اس میں خوش آواز ہے

نبی صدقے قطبا پہ آنند وار

علی کی میا تھے سدا باز ہے



دو اشعار کی تشریح


1 پیا باج پیالہ پیا جائے نا

پیا باج یک تل جیا جائے نا


پیا کے بغیر یعنی محبوب کی جدائی میں پیالہ نہیں پیا جاسکتا۔ مئے نوشی کا لطف محبوب کی موجودگی میں دو بالا ہو جاتا ہے۔ محبوب کی غیر موجودگی میں ایک لمحہ بھی گزارنا مشکل اور ناممکن ہے۔


2 گلے ہات دے کھیلے ناریاں سوں کھیل

جسوں کھیلے پیو سو سرافراز ہے


شاعر کہتا ہے کہ ناریوں یا عورتوں کے گلے میں ہاتھ ڈال کر عشق و محبت کا کھیل کھیلنا میرے پیو کا محبوب مشغلہ ہے اور وہ جس کسی عورت کے ساتھ محبت کا کھیل کھیلنا پسند کرتا ہے یقینا وہ ناری سرافراز ہوگی۔ اس کی عزت و توقیر میں چار چاند لگ جائیں گے۔


غواصی کے اشعار کی تشریح و خلاصہ

 

خلاصہ

     محمد قلی قطب شاہ نہ صرف ایک عظیم الشان سلطنت کا مطلق العنان بادشاہ، رقص و موسیقی، فن خطاطی اور فن تعمیر کا دل دادہ تھا اور اس نے دیگر ملکوں اور شہروں کے اہل کمال کو بھی اپنے دربار سے وابستہ کیا تھا ۔


      محمد قلی کے ضخیم کلیات میں کم و بیش سبھی اصناف سخن موجود ہیں لیکن بنیادی طور پر وہ غزل کا شاعر ہے۔محمد قلی سے پہلے دکن کے بہت کم شاعروں نے غزلیں کہی ہیں اور اسے دکنی غزل کی ایک کمزور روایت ملی ہے ۔ لیکن محد قلی نے اپنے کلیات میں اس صنف کی بڑے وسیع پیمانے پر پذیرائی کی ۔ تعداد اور تنوع کے اعتبار سے جتنی غزلیں اس کے کلیات میں موجود ہیں اتنی کسی اور دکنی شاعر کے ہاں نہیں ملتیں۔ محمد قلی اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر ہے۔ اس کے کلام کی اولین خصوصیت اظہار بیان کی سادگی، سلاست اور روانی ہے ۔ وہ اپنے جذبات، احساسات اور مشاہدات کو سیدھی سادی زبان میں حقیقت پسندی کےساتھ پیش کرنے کا عادی ہے۔ اس کی غزلوں میں اپنے عہد اور ماحول کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ ہندوستانی تہذیب و معاشرت اور ہندوستانی روایات کی عکاسی بھی ملتی ہے وہ نیز اس کا کلام نغمگی و موسیقیت اور صنائع و بدائع کے حسن سے مالا مال ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے