ولی دکنی اردو کا پہلا غزل گو شاعر
ولی دکنی کا تاریخ کے اس دور سے تعلق ہے جب دکنی کلچر کی تہذیبی اور ادبی اکائی، عالم گیر کی فتح دکن کی وجہ سے متاثر ہو چکی تھی اوراس کی وجہ سے پھر ایک بار شمال اور جنوب کے فاصلے گھٹ گئے تھے۔ اہل شمال، دکن کے مختلف علاقوں میں آباد ہو گئے تھے اور شمال اور جنوب کی زبان میں آ پسی لین دین شروع ہو چکا تھا۔ ولی نے دکن کی ادبی روایت کو شمال کی زبان اور فارسی روایت سے قریب تر کر کے (فارسی روایت دکنی ادب میں پہلے ہی سے جگہ پاچکی تھی) ایک ایسارنگ پیدا کیا جو سارے ہندوستان کے لیے قابل تقلید بن گیا۔
ولی سے پہلے شمالی ہند کے اہل علم، اردو کو بول چال کی زبان کے طور پر تو استعمال کرتے تھے لیکن شعر و ادب کے لیے فارسی ہی کو ترجیح دیتے تھے، کبھی کبھی اردو میں بھی شعر موزوں کر لیا کرتے تھے۔ قائم چاند پوری کے بیان کے مطابق ولی نے 1700ء میں دلی کا سفر کیا تھا اور وہاں ادبی محفلوں میں شرکت کی اوراپنا کلام سنایا۔ شمالی ہند کے شاعروں نے براہ راست ولی کا اثر قبول کیا ۔ اہل شمال کوا حساس ہوا کہ اردو جسے وہ ایک کم مایہ زبان سمجھتے تھے اس میں اتنی گہرائی، گیرائی اور قوت اظہار موجود ہے کہ اس میں ادب بھی تخلیق کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح شمالی ہند میں شاعری کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔ مصحفی کے مطابق جب 1719ء میں ولی کا دیوان دلی پہنچا تو شمالی ہند کی فضاؤں میں ولی کے نغمے گونجنے لگے اوران کے شعر زباں زد خاص و عام
ہو گئے۔
ولی دکنی اردو کا پہلا غزل گو شاعر
محمد حسین آزاد نے لکھا ہے
جب ولی کا دیوان دلی پہنچا تو اشتیاق نے ادب کے ہاتھوں پر لیا قدر دانی نے غور کی آنکھوں سے دیکھا، لذت نے زبان سے پڑھا، گیت موقوف ہوگئے۔ قوال معرفت کی محفلوں میں اس کی غزلیں گانے بجانے لگے۔ ارباب نشاط احباب کو سنانے لگے۔ جوطبیعت موزوں رکھتے تھے انھیں دیوان بنانے کا شوق ہوا ۔" (محمدحسین آزاد آب حیات صفحہ 92 )
مختصراً دیوان ولی کے دلی پہنچنے کے بعد شمالی ہند میں با قاعدہ اردو میں شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ اہل شمال کو ولی کے کلام میں قوت ترسیل اور ابلاغ کی توانائی نظر آئی۔ ولی کے اشعار گلی کوچوں، ادبی محفلوں اور اہل ذوق کی مجلسوں میں گونجنے لگے۔ شعرائے دہلی، ولی کی زمینوں میں شعر کہنے کو باعث فخر
سمجھنے لگے۔
0 تبصرے