Ad

ذوق کی غزلیں مع تشریح و خلاصہ

 

ذوق کی غزلیں مع تشریح و خلاصہ


ذوق کی غزلیں مع تشریح و خلاصہ

Ibraheem zouq ghazal tashreeh

غزل ۔ ا 

اسے ہم نے بہت ڈھونڈا نہ پایا 

اگر پایا تو کھوج اپنا نہ پایا 


مقدر ہی پہ گر سود و زیاں سے

تو ہم نے یاں، نہ کچھ کھویا، نہ پایا


سراغ عمر رفتہ ہاتھ کیا آئے

کہیں جس کا نشانِ پا نہ پایا


جہاں دیکھا کسی کے ساتھ دیکھا 

کہیں ہم نے تجھے تنہا نہ دیکھا 


نظیر اس کا کہاں عالم میں اے ذوق گر 

کہیں ایسا نہ پاۓ گا نہ پایا

ذوق کی شاعری اور غزل گوئی

Ibraheem zouq poetry in urdu

غزل ۔ ۲

!کسی بے کس کو اے بیداد! گر مارا تو کیا مارا 

!جو آ پھی مر رہا ہو، اس کو گر مارا تو کیا مارا


بڑے موذی کو مارا، نفسِ امّارہ، کو گر مارا 

!نہنگ و اژدہا و شیر نر، مارا تو کیا مارا


بنسی کے ساتھ یاں رونا ہے مثل قلقلِ مینا 

کسی نے قہقہہ اے بے خبر، مارا تو کیا مارا


گیا شیطان مارا، ایک سجدے، کے نہ کرنے سے

اگر لاکھوں برس، سجدے میں سر، مارا تو کیا مارا


دل بد خواہ میں تھا مارنا یا چشمِ بد بیں میں 

فلک پر ذوق تیرِ آہ گر مارا تو کیا مارا 

غزل ۔ ۳

'دانہ خرمن ہے ہمیں ، قطرہ ہے، دریا ہم کو 

آئے ہے جز میں نظر، کل کا تماشا ہم کو


اس نے خط جو قلمِ سرمہ سے لکھا ہم کو 

لکھا ایمائے خموشی ہے یہ گویا ہم کو 


اثر کفر ہے طاعت سے بھی اپنی پیدا

نقش سجدے کا ہے پیشانی پہ ٹیکا ہم کو


آن پہنچی سرِ گردابِ فنا کشتیِ عمر

ہر نفس بادِ مخالف کا ہے جھونکا ہم کو


ذوق بازی گہہ طفلاں ہے سراسر یہ زمیں

ساتھ لڑکوں کے، پڑا کھیلنا، گویا ہم کو 

غزل ۔ ۴

لائی حیات، آۓ قضا، لے چلی چلے

!اپنی خوشی، نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے 


بہتر تو ہے یہی، کہ نہ دنیا سے، دل لگے

پر کیا کریں! جو کام نہ؟ بے دل لگی چلے 


!ہو عمر خضر بھی تو، کہیں گے بہ وقت مرگ

ہم کیا رہے یہاں ، ابھی آئے، ابھی چلے 


دنیا نے کس کا؟ راہِ فنا میں، دیا ہے ساتھ

تم بھی چلے چلو یونہی، جب تک چلی چلے


جاتے ہوائے شوق میں ہیں، اس چمن سے ذوق 

اپنی بلا سے، باد صبا، اب کبھی چلے

آتش کی غزلیں مع تشریح و خلاصہ

میر تقی میر کی غزلیں مع تشریح و خلاصہ

ولی دکنی کی غزلوں کی تشریح و خلاصہ

غواصی کی غزلیں مع تشریح و خلاصہ

ابراہیم ذوق کے اشعار کی تشریح

Ibraheem zouq ghazal tashreeh

اسے ہم نے بہت ڈھونڈا نہ پایا

اگر پایا تو کھوج اپنا نہ پایا

     ذوق کے مطالعوں کے بارے میں ہم نے پچھلے اوراق میں پڑھا ہے کہ ان کے مطلع، سادہ سلیس ہوتے ہیں۔ ان میں اثر و کیف، لوچ و نغمگی ہوتی ہے۔ یہ مطلع بھی ان ہی خصوصیت کا حامل ہے۔ ذوق کے مزاج میں ایک فقیرانہ شان اور صوفیانہ انکسار تھا۔ اس شعر میں ذوق نے یافتِ خداوندی اور پھر اس کی یافت کے بعد فنا فی اللہ ہو جانے کا مسئلہ اٹھایا ہے۔ اللہ ہر شئے میں ہے مگر ہم اس کا شعور نہیں رکھتے۔ جب یہ شعور پیدا ہو جاتا ہے اور اسے پا لیتے ہیں تو اپنے ہونے کا شعور باقی نہیں رہتا یعنی فنا فی اللہ ہو جاتا ہے۔ انسان ایک قطرے کے مانند ہے۔ یہ قطرہ سمندر یعنی ذات باری تعالیٰ میں ڈوب جاتا ہے تو کھوجنا ممکن نہیں بالکل اسی طرح جیسے ایک گھڑے بھر پانی میں ہم نے رنگین پانی کا ایک قطرہ ڈال دیا ، وہ قطرہ گھڑے بھر پانی میں اس طرح گھل مل گیا کہ اب اسے پانا مشکل بلکہ نا ممکن ہے۔ اس شعر میں پایا کی تکرار سے ایک لطف پیدا ہوگیا ہے۔

کسی بے کس کو اے بیداد، گر مارا تو کیا مارا 

جو آ پھی مر رہا ہو، اس کو گر مارا تو کیا مارا

    ذوق کی یہ بڑی مشہور غزل ہے۔ " مارا تو کیا مارا " ردیف ہے۔ ہر شعر میں اس ردیف نے عجیب کروٹیں بدلتی ہیں۔ پوری غزل لڑی میں پروئی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور وہ ردیف لڑی ہے۔ یہ غزل ایک اخلاقی درس دیتی ہے ، نفس کشی صبر و تحمل کا دس ہے ، حقیقت و صداقت کی یافت غرور و نخوت کی وجہ سے تباہی کا سبق ہے۔

     شاعر کہتا ہے مجبور اور بے کس آدمی کمزور اور محتاج ہوتا ہے اور ایک کمزور اور محتاج کو مارتے ہو تو کون سا کمال کرتے ہو۔ یہ بچارا تو اپنی بد قسمتی کا آپ مارا ہے۔ اسے مار کر کونسی بہادری کا کام کر رہے ہو۔ بہادر تو وہ ہے جو اپنے سے طاقتور سے لڑتا ہے ، اسے پچھاڑتا ہے ، کمزور پر طاقت نہیں آزماتا۔ اس میں طاقتور کی ذلت و رسوائی ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ اپنے نفس کو ماریں جو سب سے زیادہ طاقتور ہے۔ 


خلاصہ

    ذوق کا نام شیخ محمد ابراہیم تھا۔ شاہ نصیر کے شاگرد تھے ، جنہیں مشکل زمینوں میں شعر کہنے میں کمال حاصل تھا۔ ذوق اپنی محنت ، لگن اور وسیع مطالعے کی وجہ سے بہت جلد استاد کی اصلاح سے بے نیاز ہوگئے۔ بہادر شاہ ظفر کے استاد مقرر ہوئے۔ کئی خطابات ، انعامات اور خلعت ، جاگیر وغیرہ سے سرفراز ہوئے۔ ذوق کے شاگردوں میں ظفر کے علاوہ داغ ، ظہیر ، انور ، اور محمد حسین آزاد کے نام قابل ذکر ہیں۔ ذوق نے غزلیں بھی کہیں اور قصیدے بھی۔ ذوق نے غزل کے روایتی انداز کو اپنی زبان ، محاورے اور روز مرہ کے استمعال اور مختلف علوم و فنون کی اصطلاحات سے منفرد مقام پر لا کھڑا کیا۔ زبان و بیان اور فن شاعری پر انھیں غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔ انہوں نے بہت لکھا لیکن 1857ء کے ہنگاموں میں زیادہ تر کلام ضائع ہوگیا۔ ذوق کے انتقال (1854ء) کے بعد غالب کو استادِ شاہ کا مرتبہ حاصل ہوا۔ ذوق کے کئی شعر ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے