Ad

غواصی کی غزلیں مع تشریح و خلاصہ

 

غواصی کی غزلیں مع تشریح و خلاصہ



غواصی کی غزلیں مع تشریح و خلاصہ


غزل 1

پلا مدمست اے ساقی کہ منج عادت ہے پینے کا

 ہو سرخوش دور یک دھرتے کروں گا زنگ سینے کا


مرا جیو پیو ہے اس جیو کے جیوں کوں سراؤں کیوں

کدھیں بسروں تو مر جاؤں نہ پاؤں ذوق جینے کا 


کمایا عشق کی دولت تھے میں ایسی کمائی جو

کمائی کے دھنی بن واں سچر نئیں کس کمینے کا 


پچن میری زباں کے آج تارے ہو نہ کیوں جھمکیں

کہ ہے یو چرخ زنگاری ورق میرے سفینے کا


 جیکوئی عرفان کے صاحب بچے ہیں سو کتے ہیں یوں کہ یاں تو کوئی دستا نئیں غواصی کے قرینے کا

ولی دکنی اشعار کی تشریح


غزل 2

عشق میں جاناں کے ثابت اچھ توں اے جاں غم نہ کھا 

عہد و پیماں رکھ درست اپنا یہاں ہاں غم نہ کھا


درد منداں کا سو درمان عین اس کا لطف ہے

ہوے گا یک بارگی مشکل سب آساں غم نہ کھا 



 رات اندھاری ہوۓ کہ ہرگز تو پشیمانی نہ کھینچ 

دن بی آوے گا نکل روشن ہو تاباں غم نہ کھا 


مدعا بر لیانہارا سو خدا ہے ڈر نکو

 غم تھے اکثر مکھ اپر پڑتیاں ہیں چھایاں غم نہ کھا


لا ابالی اچھ سدا ہور ذوق کر غواصیا

 ہے ترے سر پر قوی بارا اماماں غم نہ کھا



غزل 3


تج نین ٹھارتے نئیں اشارت کیے بغیر

چپ نارسیں منج آج او غارت کیے بغیر


شربت پلا منجے تج ادھر کا کہ دل میں آج

 رہتا نہیں ہے عشق حرارت کیے بغیر


 تیرے جمال کے انگے روز آفتاب کوں

 آسمان چپ رہے نہ حقارت کیے بغیر


غواص اپنے سرکوں قدم کر کیوں آ سکے

توں لطف کی نظر سے اشارت کیے بغیر



غزل 4


پرت پیو سات لانا کامیابی کی نشانی ہے

دوئی کوں دور کرنا بے حجابی کی نشانی ہے 


توں عارف ہے تو سرکش نفس کوں اپنے کہن میں لیا 

کہ پھر نانفس کے کئے میں خرابی کی نشانی ہے


وہ قدرت کاں جومیرے خیال کی تیزی کے سم چھیوے پون میں گر چہ جلدی ہورشتابی کی نشانی ہے


 تو نگر دو جہاں میں جس کہیں سو دل ہے عاشق کا پیشانی پر اگر چہ اس کی بے آلی نشانی ہے


قصید ہ ہور غزل کہنے کے فن میں دیکھتا ہوں تو

غواصی میں ظہیر فاریابی کی نشانی ہے

قلی قطب شاہ کے اشعار کی تشریح 

غواصی کی غزلیں مع تشریح و خلاصہ


 غواصی کے اشعار کی تشریح


جکوئی عرفان کے صاحب سچے ہیں سوکتے ہیں یوں

 کہ یاں تو کوئی نئیں دِستا غواصی کے قرینے کا


     جو کوئی اہل علم وعرفاں ہیں و غواصی کے شاعرانہ کمال سے بہ خوبی واقف ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں تو یعنی موجودہ دور ( غواصی کے دور ) میں دکن کے شاعروں میں کوئی بھی غواصی کے قرینے کا یعنی اس کے مرتبے کا سخنور دکھائی نہیں دیتا۔


رات اندھاری ہوۓ کہ ہرگز پشیمانی نہ کھینچ

دن بی آوے گا نکل روشن ہوتا ہاں غم نہ کھا


     رات چاہے کتنی ہی تار یک کیوں نہ ہو پشیمان ہونے یا افسوس کرنے کی کوئی بات نہیں کیوں کہ یہ گزرنے والی ہے۔ اس کا قیام مستقل نہیں ۔ ہر رات کے اختتام کے بعد دن بھی نکلے گا۔ دن کے نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ ہرطرف اجالا، روشنی اور تابانی پھیلے گی۔ اس خیال کو جگر مرادآبادی نے اس طرح پیش کیا ہے


میر تقی میر کے اشعار کی تشریح و خلاصہ

خلاصہ

     اس اکائی کے مطالعے کے بعد آپ کوانداز ہوا کہ اس میں قطب شاہی دور کے ایک بلند پایہ اور قادر الکلام شاعر ملا غواصی کے حالات زندگی، ادبی کارنامے اور خاص طور سے اس کی غزل گوئی کی خصوصیات کا مفصل جائز ہ لیا گیا ہے ۔


     غواصی مملکت گولکنڈہ کے چوتھے حکمران ابراہیم قطب شاہ کے دور میں پیدا ہوا۔ محمد قطب شاہ کے دور میں اس نے اپنی بے مثال مثنوی "سیف الملوک بدیع الجمال" لکھی۔ اس مثنوی سے قبل بھی اس نے ایک مثنوی’’میناست و نتی‘‘ تصنیف کی تھی ۔ سلطان عبداللہ قطب شاہ کے دور میں اس کی قسمت کاستارہ چمک اٹھا۔ اس بادشاہ نے اس کی سر پرستی کی اور اپنے دربار کا ملک الشعرا بنایا۔ اس دور میں غواصی نے ایک اور شاہکار مثنوی ‘‘طوطی نامہ‘‘ قلم بند کی۔ مثنویوں کے علاوہ غواصی نے قصیدے ، رباعیاں، غزلیں، نظمیں اور مرثیے بھی لکھے ہیں لیکن بنیادی طور پر وہ غزل کا شاعر ہے۔ دیگر اصناف سخن کے مقابلے میں اس کی شاعری کے جو بر غزل میں کھلتے ہیں ۔ اس کے ہم عصر شاعروں میں وجہی، محمد قلی اور عبداللہ قطب شاہ نے بھی صنف غزل میں طبع آزمائی کی ہے لیکن سادگی و سلاست، نغمگی و موسیقیت اور حقیقت پسندی اور واقعہ نگاری کے لحاظ سے غواصی کی غزلیں ان سب شعراء پر فوقیت رکھتی ہیں ۔ جذبات و احساسات اور مشاہدات کی پر اثر ترجمانی اور واردات قلب کی فن کارانہ پیش کشی کی وجہ سے اس کی غزلیں غنائیت کے کیف و سرور میں ڈوبی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔


     غواصی کا تصور محبوب اردو کے دوسرے شاعروں کی طرح مبہم اور غیر واضح نہیں بلکہ اس نے بر ملا انداز میں محبوب کے لیے تانیث کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ تاہم ریختیوں میں چونکہ اظہار عشق عورت کی جانب سے ہوتا ہے اس لیے ان میں محبوب کے لیے صیغۂ تذکیر استعمال کیا گیا ہے۔ 


     غواصی چونکہ حضرت سید شاہ حیدرولی اللہ کا مرید تھا اس لیے اس کی غزلوں میں اخلاقی اور روحانی عناصر کی کارفرمائی بھی نظر آتی ہیں ۔ غواصی اپنے عہد کا ایک قد آور شاعر اور با کمال غزل گو تھا۔ اسے اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کا بے پناہ احساس تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کسی اور شاعر کو اپنا ہم سر نہیں سمجھتا تھا۔


جوکئی عرفان کے صاحب سچے ہیں سوکتے ہیں یوں 

کہ یاں تو کوئی نئیں دستا غواصی کے قرینے کا



غزل قصیدہ اور رباعی، اردو اقتباس، اردو شاعری،اردو غزل، غزل کی تعریف اور مثال، اردو غزل کا آغاز و ارتقاء، اردو غزل، خلاصہ نگاری، خلاصہ کے معنی، تشریح، غواصی کی غزلیں مع تشریح و خلاصہ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے