غواصی کے کلام میں اخلاقی عناصر
غواصی ایک مردقلندر اور آزاد منش انسان تھا وہ "فقر" میں "شاہی" کرنے کے گر سے بہ خوبی واقف ہے۔ اور "دنیا کےطمطراق" کے مقابلے میں "خلوت نشینی" کو
ترجیح دیتا ہے ۔ اس کی بیش تر غزلوں میں اخلاقی اور روحانی عناصر کی کار فرمائی ہے ۔اس کی غزلوں میں متعدد ایسے اشعار موجود ہیں جن میں روحانی تعلیمات یا بلند اخلاقی معیاروں کوا پنانے اور مادّیت کی برائیوں سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ چند شعر ملاحظہ ہوں:
غواصی کے کلام میں اخلاقی عناصر
فقر میں کرتا ہوں شاہی اے غواص
تو نکو یوں جان جو مفلس ہوں میں
غواصی کے نمن ہو توں قلندر آج اے عابد
بڑی اس ٹوکری ایسی تجے دستار تھے کیا خط
دنیا کے طمطراق تھے دردمندگی بھلی
یعنی زمیں کے سار سر افگندگی بھلی
ہمن عاشق دوانیاں کوں چھبیلے کسوتاں کیا کام
ہمن دبلے فقیراں کوں دنیا ہور دولتاں کیا کام
ہمن سرکوں چندوٹی بس، بلش بھر کی لنگوٹی بس
سکی کھانے کوں روٹی بس قبولیاں نعمتاں کیا کام
0 تبصرے