Ad

جدید اردو غزل اور جدیدیت کی تحریک

جدید اردو غزل اور جدیدیت کی تحریک

Jadidiyat ki tehrik



جدید اردو غزل اور جدیدیت کی تحریک
جدید اردو غزل اور جدیدیت کی تحریک کا عروج



بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں اردو ادب میں جدیدیت کی تحریک کو فروغ ہوا۔ یہ ایک طرح سے ترقی پسند تحریک کی اداریے کا رد عمل تھا۔ جدیدت کی تحریک کے نظریہ سازوں نے اس بات پر زور دیا کہ ادیب کی وابستگی کسی دیے ہوئے سیاسی نظریے یا کسی سیاسی گروہ کی معلمہ پالیسی سے نہیں بلکہ اپنی ذات سے ہونی چا ہے۔ انھوں نے عصری آگہی پر زور دیا۔ اس تحریک کے زیراثر سیاسی مسائل کی جگہ عصر حاضر کے انسان کے وجودی مسائل نے لے لی ۔ بعض جدید ادیبوں اور شاعروں نے ماضی کی ادبی روایات سے اپنا رشتہ توڑ لیا اور شعر و ادب میں زبان اور فن کے نئے تجربے کیے ۔ تجریدی کہانی اور اینٹی غزل اس کی مثالیں ہیں۔ اس تحریک نے اردو غزل پر بھی گہرا اثر ڈالا ۔ غزل کی زبان میں تبدیلیاں آئیں، نئے استعارے اور علائم وضع کیے گئے۔ جدید غزل کی ایک اہم شناخت یہ ہے کہ روایتی غزل کے مثالی عشق کی جگہ دور حاضر میں معاشرتی تبدیلیوں کے ساتھ عشق کی بدلتی ہوئی گونا گوں کیفیات اور واردات کو حقیقت نگاری کے ساتھ پیش کیا جانے لگا ۔ اظہار کے نت نئے اسالیب سے غزل کی صنف روشناس ہوئی ۔ اس کے موضوعات میں بھی وسعت پیدا ہوئی ۔ چند شعر ملاحظہ ہوں:



ایک آسیب لرزاں مکانوں میں ہے

 مکیں اس جگہ کے سفر پر گئے

منیر نیازی


کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری 

اب لئے پھرتا ہے دریا ہم کو

احمد مشتاق


ذہن تمام بے بسی روح تمام تشنگی

سو یہ ہے اپنی زندگی جس کے تھے اتنے انتظام

جمیل الدین عالی


پہچان بھی سکی نہ مری زندگی مجھے

اتنی روا روی میں کہیں سامنا ہوا 

خورشید احمد جامی


گوشۂ مصلحت میں بیٹھا ہوں 

حق کا اقرار ہے نہ ہے انکار

سلیم احمد


قیدیوں کے لیے بہتر ہے گھٹ کر مر جائیں

روشنی گر نہیں آتی تو ہوا کیوں آئے

شہزاد احمد


بادل ہٹا کے چاند نے دیکھا غضب ہوا

روشن تھی آگ چاروں طرف روشنی نہ تھی

باقر مہدی


راہوں میں کوئی آبلہ پا اب نہیں ملتا

رستے میں مگر قافلہ سالار بہت ہیں

ادا جعفری


بھلا دو رنج کی باتوں میں کیا ہے 

ادھر دیکھ میری آنکھوں میں کیا ہے

شان الحق حقی


رفیق و یار کہاں اے حجاب تنہائی

خود اپنے چہرے کو تکتا ہوں آئینہ رکھ کر

محمود ایاز


عیب نظارہ تھا بستی کے اس کنارے پر

سبھی بچھڑ گئے دریا سے پار اترتے ہوئے

بانی


مرا یہ حشر بھی ہونا تھا اک دن

کبھی ایک چیخ تھا سب خامشی ہوں

سلیمان اریب


مرا غزال کہ وحشت تھی جس کو سائے سے

لپٹ گیا میرے سینے سے آدمی کی طرح

سجاد باقر رضوی


آندھی چلی تو نقشِ کفِ پا نہیں ملا 

دل جس سے مل گیا وہ دو بارہ نہیں ملا

مصطفیٰ زیدی


سے شیشہ گرو کچھ تو کرو ، آئینہ خانہ

رنگوں سے خفا رخ سے جدا یوں نہ ہوا تھا 

زہرہ نگاہ


عجیب شہر ہے گھر بھی ہے راستوں کی طرح

کسے نصیب ہے راتوں کو چھپ کے رونا بھی

عزیز قیسی 


اندر کی آگ دیکھئے روشن ہے یا نہیں 

اٹھتا ہوا مکان کے سر سے دھواں تو ہے

ظفر اقبال


خموش بیٹھنا چاہوں تو دشت چھیڑتا ہے

یہاں بھی کوئی نکل آیا ہم سخن میرا 

زیب غوری


گھر بھی جلا، لہو بھی بہا، پھر یہ حکم ہے

فریاد مت کرو یہ کوئی حادثہ ہوا 

وحید اختر


زندگی جب پڑ گیا خود کو بھلا دینے کا نام

سوچتا ہوں تیری یادوں میں بھی کیا رہ جائے گا

راشد آذر


چھپا کے رکھ دیا پھر آگہی کے شیشے کو

اس آئینے میں تو چہرے بگڑتے جاتے تھے

کشور ناہید 


یہ اک چاپ جو برسوں سے سن رہا ہوں میں

کوئی تو ہے جو یہاں آکے لوٹ جاتا ہے 

اسلم انصاری 


منزل صبح آگئی شاید

راستے ہر طرف کو جانے لگے

محبوب خزاں


زیست اب کس طرح بسر ہوگی

جی نہیں لگ رہا محبت میں 

جون ایلیا

بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا

میں سمندر دیکھتی ہوں تم کنارہ دیکھنا 

پروین شاکر


ابھی میں گھر کے اندر سو رہا تھا

ابھی میں گھر سے بے گھر ہوگیا ہوں

محمد علوی


کبھی روتا تھا اسکو یاد کرکے

اب اکثر بے سبب رونے لگا ہوں

انور شعور


میاں کرتے رہو جو جی میں آئے

بڑے بوڑھوں کی باتوں پر نہ جاؤ

عادل منصوری


پتھر سے وصال مانگتی ہوں

میں آدمیوں سے کٹ گئی ہوں 

فہمیدہ ریاض


اب میں ہوں میری جاگتی راتیں ہیں، خدا ہے

یا ٹوٹتے پتوں کے بکھرنے کی صدا ہے

نذیر احمد ناجی


دن آرزو کے یوں ہی اداسی میں کٹ گئے

وہ اپنے دکھ، میں اپنی پریشانیوں میں تھا

ریاض مجید


تم ہو یا میرے شوق کا عالم 

کوئی اس جان بے قرار میں ہے

قمر جمیل


مٹی تھا کس نے چاک پہ رکھ کر گھما دیا 

وہ کون ہاتھ تھا کہ جو چاہا بنا دیا

اجلال مجید


پتہ آنکھوں کو ملتا یہیں سب جانے والوں کا

سبھی اس آئینہ خانے کی حیرانی میں رہتے ہیں

شمیم حنفی


گفتگو کسی سے ہو تیرا دھیان آتا ہے 

ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ تکلم کا 

فرید جاوید


مجھ سے جدا ہوئے تو وہ مجھ سے جدا نہ ہوسکے 

آئینہ فراق کو عکس وصال دے گئے

عطا الرحمن جمیل


منزل نہ خیر کب تھی ہمارے نصیب میں 

ہاں یہ ہوا کہ گھر سے بہت دور ہوگئے

اصغر گورکھپوری


بیٹھے تھے گھنی چھاؤں میں اس کی نہ تھی خبر

بڑھ جائے گی یہ دھوپ اور یہ سایہ نہ رہے گا

سید آل رضا 


چھپی تھی موج کی باہوں میں روح تشنہ لبی

چمکتی ریت میں ڈوبا ہوا سفینہ تھا

مظہر امام 




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے