غواصی کے کلام کی سادگی و سلاست
غواصی کے کلام کی سب سے نمایاں خصوصیت اظہار بیان کی سادگی، سلاست اور بے ساختگی ہے لیکن جو چیز اس کو دکنی اردو کے متغزلین میں ایک منفرد مقام بخشتی ہے اور اردو کے صف اول کے شعرا میں لا کھڑا کرتی ہے وہ تاثر کی فراوانی، سوز و گداز اور شعریت ہے۔ غواصی کوزبان و بیان پر بڑی قدرت حاصل ہے ۔ اس کے کلام میں تازگی اور شگفتگی ہے اس کے انداز میں ایک اعتدال، ٹھہراؤ اور توازن نظر آ تا ہے۔ اس کی آواز رچی ہوئی اور مصفا ہے ۔اس کا لہجہ دل نشین اور اپنے پیش رو یا معاصر ین سے مختلف ہے ۔وہ دراصل دکنی غزل کے ایک نئے اسکول کا بانی ہے جس کی زمانۂ مابعد کے بلند پایہ شاعروں خصوصاً ولی اور سراج نے پیروی کی ہے ۔غواصی کی شاعری بنیادی طور پر حسن وعشق کی شاعری ہے ۔ جذبات و احساسات کی موثر ترجمانی اور قلبی واردات کی فن کارانہ عکاسی کی وجہ سے اس کی بیش تر غزلیں غنائیت کے کیف وسرور میں ڈوبی ہوئی معلوم ہوتی ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ باوجود انتہائی سادگی کے کلام میں بلا کا اثر ہے۔ تاثر کے ساتھ اس کے کلام میں سوز و نشتریت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے ۔ وہ پر درد سروں کو غزل کے ساز پر کچھ اس طرح چھیڑتا ہے کہ سننے والا بھی اپنے دل کے تاروں میں ارتعاش محسوس کرنے لگتا ہے:
غواصی کے اشعار
ہماری دو چنچل سجانا کہاں
لگی چٹپٹی ٹھیر پانا کہاں
مجھے اس تھے دل توڑو کہتے ولے
آسوں توڑ دل بی لگانا کہاں
آیا نہ ہات اچھوں وو پرس آہ کیا کروں
سینے میں رہ گیا یوں ہوس آہ کیا کروں
کدھیں برکوں رو روئے کر بحر کر میں
کدھیں آہ سوں بحر کوں بر کیا ہوں
گھڑی کوں دل، گھڑی کوں جان دونوں کھینچتے دو دھر
قرار یک تل نہیں مجھ کوں کہ ہاتے ہات پھرتا ہوں
Ugc net urdu syllabus for study
غواصی ایک حسن پرست شاعر ہے ۔اس کا رومانی جذبہ خارجی شاعری کی تصویر کشی میں زیادہ واضح طور پر نمایاں ہوتا ہے ۔ اسے مناظر قدرت کی عکاسی میں یدِ طولٰی حاصل ہے ۔اس کی مثنویوں اور قصیدوں میں مناظر فطرت کی مرقع کشی کے متعدد نمونے موجود ہیں ۔صنف غزل میں بھی اس نے منظر نگاری اور سراپا نگاری کا کمال دکھایا ہے ۔ محبوب کے حسن کو اجاگر کر نے یا اس کے جسمانی اعضا کی تعریف و توصیف کے سلسلے میں اس نے مناظر قدرت سے طرح طرح سے کام لیا ہے۔
بھنور کر جیو کوں میرے ادک لبدایتا تیرا
کمل مہہ ہور نین نرگس، رنگیلا لال گل لالہ
چمن کے جھاڑ سب خوش ہوسگل پھولاں منے تیرا
سہیلا گاؤتے پاتاں کے ہاتاں سوں بجا تالا
صراحی گردن اونچی کر اُمس سوں آۓ خدمت میں
کیا اپنی محبت ہور کرم کا جیوں نظر پالا
کھوپنا جو گھالی پینچ کر بیٹھے مرا سد لیچ کر
تو چاند اپس کوں بیچ کر بیج حسن اگے دکھلائیا
حیران ہو، جمال ترا دیک ہر گھڑی
چنتے ہیں آج چاند پہ تارے ہزار نقش
اے چھبیلی آج تیرے چھند ہور چپ کوں سلام
تج گلابی گال کوں ہور اس مٹھے لب کوں سلام
اس میں شک نہیں کہ غواصی نے اپنے اردگرد کی اشیا کوآ نکھ کھول کر دیکھا ہے ۔منا ظر قدرت کا غائر نظر سے مشاہدہ کیا ہے لیکن اس کے بیان کی خارجیت میں جذبے کی داخلیت بھی شامل ہے اور کہیں کہیں یہ داخلیت خودکلامی کا روپ اختیار کہ لیتی ہے قلبی واردات کا بیان اس نے جس انداز سے کیا ہے اور اس میں سادگی و پر کاری نے جس طرح نئے نئے پہلو تراشے ہیں وہ بہ یک وقت اس کے جذبات کی گہرائی اورفنی پختگی کی دلیل ہیں ۔ چھوٹی اور مترنم بحروں میں غواصی کے اشعار میرتقی میر کی یادتازہ کر دیتے ہیں۔
دل میں اک بات ہے کسے نہ کہوں
کہ پُھٹے گی دو بات یاں واں پڑ
دل کی دیوانگی نہیں جاتی
پھونکتا ہوں جتا دعایاں پڑ
اے سجن تجھ کوں یاد کر پل پل
روؤں آپس میں اپیچ میں ڈھل ڈھل
نہ آسی نیند منج آج اس رین میں
کہ سلتی برہ کی کنکری نین میں
اگر تج سا سرو کیئں ہور ہوتا
بنے بن بلبلاں کا شور ہوتا
وو فتنے بھریا سو ہے فتنا عجب
اسی تھے یتاجگ میں فتنا ہوا
آج منج دل کوں کچ قرار نہیں
کیا کروں میں نزک وو یار نہیں
اے دل آرام میں جدھر جاؤں
دل کوں تیریچ پاس دھر جاؤں
دیکھ تج مکھ کی شمع کوں یو جیو
دوڑتا جیوں پتنگ جاتا ہے
کھول ادھر منج سوں بول بارے تو
کس چمن کی ہے پھول کی ڈالی
غزل قصیدہ اور رباعی، اردو اقتباس، ugc net urdu syllabus، غواصی کے کلام کی سادگی و سلاست، دکن میں اردو، غواصی کی حیات و غزل گوئی، قطب شاہی دور کی نثر
0 تبصرے