حسین حالی مثنوی نگاری
Altaf husain hali masnavi
حالی کا شمار علی گڑھ تحریک کے اہم علمبرداروں میں ہوتا ہے۔ جب حالی پنجاب گورنمنٹ بک ڈپو کی ملازمت کے سلسلے میں لاہور میں مقیم تھے تو انہوں نے انجمن پنجاب کے تحت منعقد ہونے والے نظم کے مشاعروں میں بھی محمد حسین آزاد کے ساتھ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ ان مشاعروں میں حالی نے چار مثنویاں برکھارت ۔ نشاط امید " " حب وطن اور " مناظرہ رحم و انصاف“ پیش کیں جنہیں بہت سراہا گیا ۔ انجمن پنجاب کی نئی شاعری کے مشاعروں کے آغاز سے قبل ہی حالی نے مثنوی نگاری کی طرف توجہ کی تھی۔ چنانچہ انہوں نے اپنی پہلی مثنوی " جواں مردی کا کام " جو ایک انگریزی حکایت سے ماخوذ ہے 1872ء میں تخلیق کی تھی جب کہ انجمن پنجاب کا پہلا مشاعرہ 1874ء میں منعقد ہوا تھا۔ حالی کو جب اینگلو عربک اسکول دلی میں ملازمت مل گئی تو وہ لاہور سے دہلی آگئے ۔ دہلی آنے کے بعد وہ سرسید تحریک سے متاثر ہوئے اور سرسید کی جماعت کے ایک اہم رکن بن گئے ۔ اس تحریک کے زیر اثر انہوں نے کئی طویل اور مختصر مثنویاں لکھیں جیسے تعصب و انصاف، کلمتہ الحق ، مناجات بیوہ ، جھوٹ اور ایکے کا مناظرہ اور حقوق اولاد وغیرہ حالی کی سرسید تحریک کے زیر اثر لکھی ہوئی مثنویوں میں سماجی شعور کی جو پختگی نظر آتی ہے وہ لاہور کی مثنویوں میں نہیں ہے۔ ذیل میں حالی کی کچھ اہم مثنویوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔
نشاط امید حالی کی مشہور مثنوی ہے جو انجمن پنجاب لاہور کے دوسرے مشاعرے میں پڑھی گئی تھی ۔ یہ 92 اشعار پر مشتمل ہے ۔ اس مثنوی میں حالی نے امید کے فوائد اور کارناموں پر نہایت دلچسپ انداز میں روشنی والی ہے۔ اس موضوع پر محمد حسین آزاد کی بھی ایک مثنوی ہے حالی کی اس نظم پر سرسید کے مشہور مضمون " امید کی خوشی " کا واضح اثر نظر آتا ہے ۔ حالی نے امید کی ولولہ خیزی اور حوصلہ انگیزی کو بڑی خوبی سے واضح کیا ہے۔ یاس اور نا امیدی انسان کو پست اور ہمت اور بے عمل بنا دیتی ہے ۔ اس سے آدمی زندگی کا حوصلہ ہار بیٹھتا ہے۔ جب کہ امید انسان کو غم کے اندھیرے سے باہر نکالتی اور اسے قوت عمل عطا کرتی ہے۔ امید سے خطاب کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں :
UGC NET URDU 2024
ہوتا ہے نومیدیوں کا جب ہجوم
آتی ہے حسرت کی گھٹا جھوم جھوم
لگتی ہے ہمت کی کمر ٹوٹنے
حوصلے کا لگتا ہے جی چھوٹنے
ہوتی ہے بے بصری و طاقت میں جنگ
عرصہ عالم نظر آتا ہے تنگ
بیٹھنے لگتا ہے دل آوے کی طرح
یاس ڈراتی ہے چھلاوے کی طرح
جاتا ہے قابو سے دل آخر نکل
کرتی ہے ان مشکلوں کو تو ہی حل
یہ رجائی ترانہ حالی نے اس وقت چھیڑا جب 1857ء کے روح فرسا ہنگاموں کے بعد مسلمان اپنے حال و مستقبل سے مایوس اور ناامید ہو چکے تھے اور انہیں روشنی کی کوئی کرن نظر نہ آتی تھی۔
حب وطن حالی کی ایک نسبتا طویل مثنوی ہے ۔ یہ 215 اشعار پر مشتمل ہے۔ یہ بھی لاہور کے مشاعرے میں پڑھی گئی تھی ۔ اس نظم کے ایک ایک مصرع سے حالی کی ملک دوستی اور حب الوطنی کا اظہار ہوتا ہے۔ اس میں انہوں نے اپنے وطن کی سر زمین، اس کے آسمان، موسم ، مناظر، چاند، سورج، چرند، پرند، دشت و دریا، کوه و صحرا اور چمن و باغ کا نہایت والہانہ انداز میں ذکر کیا ہے ۔ وہ وطن کی مشت خاک کو بہشت پر ترجیح دیتے ہیں۔
تیری اک مشت خاک کے بدلے
لوں نہ ہرگز اگر بہشت ملے
حب الوطنی کا تقاضہ یہ ہے کہ قوم پر اگر تباہی آرہی ہو تو اسے بچانے کی فکر کرے ۔ قوم کی فلاح جان سے بھی بڑھ کر ہونی چاہیے۔
قوم پر کوئی زو نہ دیکھ سکے
قوم کا حال بد نہ دیکھ سکے
قوم سے جاں تلک عزیز نہ ہو
قوم سے بڑھ کے کوئی چیز نہ ہو
الطاف حسین حالی کی قومی نظمیں
اردو شاعری میں حالی نے پہلی مرتبہ قوم کو اہل ملک کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ اس سے قبل یہ لفظ فرقے یا ذات یا طبقے کے معنی میں استعمال کیا جاتا تھا۔
مناجات بیوہ حالی کی آخری مثنوی ہے ۔ یہ مثنوی 447 اشعار پر مشتمل ہے ۔ اردو شاعری میں عورت کو محض محبوب ہی سمجھا گیا تھا۔ اس کی سماجی زندگی اس کے مسائل اس کے دکھ درد کی طرف توجہ نہیں کی گئی تھی ۔ حالی نے ” مناجات بیوہ " اور " چپ کی داد " میں مظلوم بے زبان ہندوستانی عورت کے دل کی کسک اجاگر کی ہے ۔ ان نظموں میں حالی طبقہ نسواں کے غمگسار اور ہمدرد کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتے ہیں ۔ ان نظموں سے ان کی درد مندی خلوص اور اصلاحی رجحان کا پتہ چلتا ہے ۔ مثنوی مناجات بیوہ میں ایک نو عمر بیوہ خدا کی جناب میں فریاد کرتی ہے۔ اس کی شادی بچپن میں ہوئی اور وہ بیوہ ہوگئی ۔ اس طرح اس کی فریاد بیواؤں کے جذبات اور ان کے دل دوز احوال کا مرقع بن گئی ہے۔ مناجات بیوہ کی اہم خوبی اس کی شدت احساس ہے۔ حالی نے بیوہ کے حال زار کے جن پہلوؤں کا مشاہدہ کیا وہ معمولی تخیل والے شاعر کے بس کی بات نہیں ۔
حالی کی دیگر مثنویوں میں برکھارت، مناظرہ رحم و انصاف، مثنوی تعصب و انصاف، مثنوی کلمتہ الحق، پھوٹ اور ایکے کا مناظرہ اور حقوق اولا د قابل ذکر ہیں ۔ حالی شاعری کو اصلاح و تعمیر کا وسیلہ اور خیالات کی تبدیلی کا ذریعہ بنانا چاہتے تھے۔ ان کی مثنویاں ان کی مقصدی شاعری کے نظریے کا عمدہ نمونہ ہیں۔ انہوں نے شاعری کو عشق و عاشقی کے روایتی کوچے سے نکال کر اسے قومی و ملی فلاح و بہبود کے میدان وسیع بیاں سے ہم کنار کیا۔ جدید رنگ کے مثنوی نگاروں میں حالی سب سے ممتاز ہیں ۔ ان کی شاعری میں سادگی، خلوص، بے ساختگی اور دردمندی پائی جاتی ہے ۔ اس لیے ان کے اشعار دلوں کو چھوتے ہیں ۔ حالی نے اپنی مثنویوں میں اصلاح کی تلقین کی ہے لیکن یہ سپاٹ اور بے اثر نہیں ہے۔ ان کی تخلیقات میں جذبہ و فکر دونوں کا امتزاج ہے۔
0 تبصرے