Ad

کنایہ


مجاز کی قسم کنایہ



مجاز کی چوتھی قسم کنایہ ہے۔


مجاز کی تیسری قسم مجاز مرسل ہے


لغت میں پوشیدہ بات کہنے کو کنایہ کہتے ہیں۔👈

علم بیان میں کنایہ وہ لفظ یا الفاظ ہیں جو حقیقی معنوں میں مستعمل نہ ہوں بلکہ ان سے غیر حقیقی معنی مراد ہوں لیکن 
حقیقی معنی بھی مراد لیے جاسکتے ہیں۔

نہیں ہوس وقت جوش مستی قد خمیدہ سے تو حیا 
بتوں کا بندہ رہے گا کب تک خداخدا کر، خداخدا کر
ہوس
اس شعر میں قد خمیدہ کنایہ ہے عالم پیری سے

ساقیا بغیر شب جو پیا آب آتشیں 
شعلہ وہ بن کے میرے دین سے نکل گیا
ناسخ
آب آتشیں کنایہ شراب سے ہے۔

صبح آیا جانب مشرق نظر
اک نگار آتشیں رخ، سر کھلا
مرزا غالب
"نگار آتشیں رخ سر کھلا" کنایہ ہے سورج سے کہ اس کا چہرہ آتشیں ہے اور سر کھلا ہے ۔ سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے ۔

بند اس قفل میں ہے علم ان کا 
جس کی کنجی کا کچھ نہیں ہے پتہ
مولانا الطاف حسین حالی 
علم کا ایسے قفل میں بند ہونا جس کی کنجی کا کچھ پتہ نہ ہو ۔ کنایتاً یہ کہا گیا ہے کہ علم جس تک رسائی نہ ہو سکے ، بے فائدہ ہے 

اب کے جنوں میں فاضلہ شاید نہ کچھ رہے 
دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں 
میر تقی میر
دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں فاصلہ نہ رہے ، یعنی دست جنوں گریباں کو اتنا پھاڑ دے کہ اس کا چاک دامن کے چاک سے مل جائے۔

مر جائیے یا کچھ ہو ، کسے دھیان کسی کا
دنیا میں نہیں کوئی میری جان کسی کا 
ظفر 
عاشق کنایتاً محبوب سے کہتا ہے کہ تمھیں ہمارا خیال نہیں، چاہے ہم کریں یا جئیں۔

    غزل کا اچھا شاعر اس اصول پر کار بند رہتا ہے کہ کسی خیال ، مضمون، تجربے یا احساس کو بہ راہ راست نہ بیان کیا جائے ، ایما اور اشارے کی زبان سے کام کیا جائے اور یہ کام کنایہ بخوبی انجام دیتا ہے۔ اردو کی غزلیہ شاعری کی زبان کنایوں سے بھری پڑی ہے ۔ چند شعر پیش ہیں دیکھیے کہ کنایوں نے کس طرح ایمائیت کا جادو جگایا ہے ۔

دل کی آبادی کی اس حد ہے خرابی کی نہ پوچھ 
جانا جاتا ہے کہ اس راہ سے لشکر گزرا
میر تقی میر

لطف پر اس کی ہم نشیں مت جا 
کبھی ہم پر بھی مہربانی تھی
میر تقی میر

ساقی ہے اک تبسم گل موسم بہار
ظالم بھرے ہے جام تو جلدی سے بھر کہیں
سودا

صبر وحشت اثر نہ ہوجائے
کہیں صحرا بھی گھر نہ ہو جائے
مومن خاں مومن

مرگ عاشق تو کچھ نہیں لیکن
اک مسیحا نفس کی بات گئی
جگر مرادآبادی

ترے شباب نے یوں دی مری نگاہ کی داد
ستارہ چاند ہوا ، چاند آفتاب ہوا
میکش اکبر آبادی

قفس ہے بس میں تمھارے ، تمھارے بس میں نہیں
چمن میں آتش گل کے نکھار کا موسم
فیض احمد فیض

یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمین کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے
ناصر کاظمی





ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے