Ad

استعارہ اور تلازمے


استعارے اور تلازمے



مجاز کی دوسری قسم استعارہ ہے۔

استعارہ کی بنیاد تشبیہ پر ہوتی ہے۔ تشبیہ میں مشبہ اور مشبہ بہ میں مشابہت دکھائی جاتی ہے جب کے استعارے میں مشابہت کی بنا پر مشبہ کو مشبہ بہ ٹھہراتے ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ احمد شیر کی طرح بہادر ہے تو یہ تشبیہ ہوگی۔ لیکن بہادری کے وصف کی بنا پر احمد کو شیر کہا جائے تو یہ استعارہ ہوگا ۔


استعارہ کا موضوع ساقی شراب و زاہد

استعارہ کا موضوع قتل قاتل زخم خنجر

   
   استعارے میں مشبہ کو مستعارلہ اور مشبہ بہ کو مستعار منہ کہتے ہیں اور وجہ شبہہ وجہ جامع کہلاتی ہے۔

یہ شوخی نرگس مستانہ ہم سے 
چھلک کہ رہ گیا پیمانہ ہم سے 

شان الحق حقی

" نرگس مستانہ " استعارہ ہے محبوب کی آنکھ کا جو نرگس کے مشابہہ ہے اور جس سے مستی جھلک رہی ہے ۔ شعر میں آنکھ کا ذکر نہیں جس کو نرگس سے تشبیہ دی گئی ہے ۔
         اردو غزل کی زبان بڑی حد تک استعارتی ہے ۔ ہر استعارہ تشبیہ کے مختلف علاقے رکھتا ہے جنھیں تلازمہ کہتے ہیں ۔ مثلاً گلشن ، گلستاں یا چمن کے تلازمے ہیں : زندگی ،دنیا ،وغیرہ۔ کبھی شعر میں ایک ہی استعارہ بہ یک وقت مختلف تلازموں کے ساتھ برتا جاتا ہے جس کی وجہ سے شعر میں مختلف مفاہیم پیدا ہوتے ہیں ۔ ٫آئینہ، اردو غزل کا ایک مقبول استعارہ ہے ۔ اس کے کئی تلازمے ہیں۔ ایک تلازمہ صفائی ہے۔

چاروں طرف سے صورت جاناں ہو جلوہ گر
دل صاف ہو ترا تو ہے آئینہ خانہ کیا 
آتش

    آئینہ کا ایک خاص تلازمہ"حیرانی" ہے۔ آئینہ آنکھ کی مانند ہوتا ہے۔ جب کسی پر حیرت طاری ہوتی ہے تو اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں ۔ آئینہ ایسی آنکھ ہے جو کبھی پلک نہیں جھپکتی ۔ یہ اس کی حیرانی کا ثبوت ہے۔

منہ تکا ہی کرے جس تس کا 
حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا 
میر تقی میر

    صوفیہ تخلیق کائنات کی وضاحت کے لئے آئینے کی تمثیل سے کام لیتے ہیں۔ ذات حق کی ایک صفت علم ہے ۔ وہ قدیم سے عالم ہے ۔ عالم کے لئے معلوم کا ہونا ضروری ہے ۔ گویا معلومات حق بھی قدیم ہے ۔ معلومات حق کو آئینوں سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ کیوںکہ وہ اپنی کوئی شکل نہیں رکھتے تھے ۔ جب ذات حق کی تجلی آئینوں پر پڑی تو ان کی شکلیں ملیں ۔ معلومات حق مخلوق میں مبدل ہوئیں ۔ گویا ساری مخلوقات ذات حق کے آئینے ہیں جن میں وہ اپنا مشاہدہ کرتا ہے ۔ تخلیق کی غایت یہ بتائی جاتی ہے کہ ذات حق ایک چھپا ہوا خزانہ تھی اس نے چاہا کہ پہچانا جائے اس لئے اس نے مخلوقات کو پیدا کیا یعنی تخلیق کی غایت خود بینی اور خود نمائی ہے۔ تخلیق ایک عمل جاریہ ہے ۔ غالب نے آئینے کے استعارے کے ذریعے اس عمل جاریہ کی خوب صورت سے تصویر کھینچی ہے :

آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز 
پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں 

فانی بدایونی نے آئینے کے استعارے کو ایک شعر میں مجازی اور حقیقی دونوں مفاہیم میں برتا ہے : 

کاش آئینہ ہاتھ سے رکھ کر 
تم مرے حال پر نظر کرتے 

   مجازی سطح پر معنی یہ ہیں کہ محبوب آئینے کے سامنے اپنے جمال کی آرائش میں مصروف ہے ۔ اسے کچھ غرض نہیں کہ اس کی جدائی میں عاشق پر کیا گزر رہی ہے ۔ حقیقت کی سطح پر شعر کا یہ مفہوم ہے کہ ذات حق  خود بینی اور خود نمائی میں محو ہے وہ مخلوق کی حالت سے بے نیاز ہے 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے