Ad

حلقۂ ‏ارباب ‏ذوق ‏اور ‏ترقی ‏پسند ‏تحریک

حلقۂ ‏ارباب ‏ذوق ‏اور ‏ترقی ‏پسند ‏تحریک


حلقۂ ارباب ذوق اور ترقی پسند تحریک
حلقۂ ارباب ذوق اور ترقی پسند تحریک


فراق کے بعد اردو غزل نے اپنا بدل چولا دیا۔ بیسویں صدی کی 
تیسری اور چوتھی دہائی میں نئے ادب کی دو تحریکیں ابھریں جنھیں حلقہ ارباب ذوق اور ترقی پسند ادب کی تحریکوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہر دو تحریکوں نے ابتدا میں غزل سے بے اعتنائی برتی ۔ ترقی پسند اسے جاگیردارانہ عہد کی باقیات سمجھتے تھے۔ اور حلقۂ ارباب ذوق کے شعرا نے نظم میں نئے نئے تجربوں کے لیے اپنی صلاحیتیں وقف کر دی تھیں ۔ ترقی پسندوں نے غزل کی عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے محسوس کیا کہ یہ ان کے سیاسی معتقدات کے پرچار کے لیے کارآمد صنف ہے ۔فیض احمد فیض، مجروح سلطان پوری اور ساحر لدھیانوی جیسے شعرا نے غزل میں سیاسی خیالات، بغاوت اور انقلاب کے جذبات کے اظہار کے لیے غزل کی ایک نئی زبان تخلیق کی ۔ انہوں نے غزل کے معروف اور مروجہ استعاروں کو نئے تلازمے دیے لیکن ترقی پسندی کے انتہاپسندی کے دور میں جب ادیبوں، شاعروں سے یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ وہ اپنے خیالات کا ڈھکے چھپے انداز میں نہیں بلکہ کھل کر اظہار کریں تو ترقی پسند غزل میں نعره بازی در آئی تا ہم فیض جیسے شاعروں نے اپنی غزل کو اس رجحان سے محفوظ رکھا ۔ ذیل میں ترقی پسند غزل کا نمونہ دیا جاتا ہے۔



بیگانۂ صفت جادۂ منزل سے گزر جا
ہر چیز سزاوارِ نظارہ نہیں ہوتی
ساحر لدھیانوی

کچھ تجھ کوخبر ہے ہم کیا کیا اے سورشِ دوراں بھول گئے
وہ زلف پریشاں بھول گئے ، وہ دیدۂ گریباں بھول گئے
اسرار الحق مجاز

کیا تجھ کو پتہ، کیا تجھ کو خبر دن رات خیالوں میں اپنے
اے کاکل دوراں ہم تجھ کو کس طرح سنوارا کرتے ہیں
معین احسن جذبی

سکوں میسر ہوتو کیوں کر، ہجوم رنج و نحن وہی ہے 
بدل گئے ہے اگر چہ قاتل نظام دارو رسن وہی ہے 
علی سردار جعفری


کون تھا آخر جو منزل کے قریب
آئینے کی چادریں پھیلا گئے
احمد ندیم قاسمی

فریب پاسبانی دے کے ظالم لوٹ لیتے ہیں 
ہمیں خود اپنے گھر کا پاسباں نہیں بننے دیتے
پرویز شاہدی

ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے
ظہیر کاشمیری

آزادیوں کے بعد وطن کی ترقیاں 
آنسو جلا کے دیکھ، ستارے بجھا کے دیکھ
شاد عارفی

شکم نے دل کی حقیقیت بھی کھول دی آخر
مقام رزق سے آگے کوئی مقام نہیں 
قتیل شفائی

ہمیں ملا ہی نہیں کوئی سایہ دار درخت
گھنیری چھاؤں میں ورنہ ذرا ٹھہر جاتے 
جمیل ملک 

اب حیات انساں کا حشر دیکھئے کیا ہو
مل گیا قاتل کو منصب مسیحائی
شاہد صدیقی 

بہ فیض مصلحت ایسا بھی ہوتا ہے زمانے میں 
کہ رہزن کو امیر کارواں کہنا ہی پڑتا ہے 
جگن ناتھ آزاد

حلقہ ارباب ذوق کے شاعر آزاد خیال تھے ۔ وہ ادب کو کسی سیاسی نظریے سے وابستہ کرنے کے قائل نہیں تھے ۔ خیالات کی براہ راست ترسیل اور تبلیغ سے بھی گریز کرتے تھے۔ انھوں نے نظم کی طرح غزل کو بھی حیات انسانی کے داخلی مسائل، نفسیاتی کیفیات کے اظہار اور درون خانہ ہنگاموں کی تصویر کشی تک محدود رکھا۔ خارجی طور پر انھوں نے غزل میں کسی طرح کی جدت طرازی نہیں کی۔


ذرے میں سورج اور سورج میں ذرہ روشن رہتا ہے
اب من میں ساجن رہتے ہیں اور ساجن میں من رہتا ہے 
قیوم نظر

گلشن کی شاخ شاخ کو ویراں کیا گیا
یوں بھی علاج تنگئ داماں کیا گیا
یوسف ظفر

تھی تو سہی پر آج سے پہلے ایسی حقیر فقیر نہ تھی
دل کی شرافت، ذہن کی وجودت اتنی بڑی تقصیر نہ تھی
مختار صدیقی

آئی تھی اک صدا کہ چلے آؤ اور میں
صحرا عبور کر گیا شوق فضول میں 
وزیر آغا

تری چاہت کے سناٹے سے ڈر کر
ہجوم زندگی میں کھو گئے ہم 
شہرت بخاری

دیکھ پھولوں سے لدے دھوپ نہائے ہوئے پیڑ
ہنس کے کہتے ہیں گزاری ہے خزاں بھی ہم نے
ضیا جالندھری




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے