Ad

غواصی کے کلام میں حقیقت پسندی

 



غواصی کے کلام میں حقیقت پسندی


غواصی کے کلام میں حقیقت پسندی


     دکنی اردو کے دوسرے شاعروں کی طرح غواصی نے بھی اپنے کلام میں مقامی ماحول اور مقامی روایات کی بھر پور ترجمانی کی ہے۔ اس کی غزلوں میں ہندوستانی ماحول، ہندوستانی طور طریقے اور تصورات یہاں کے سبزہ و گل اور مناظر قدرت کی دل کش تصویریں ملتی ہیں ۔اس کے ہاں یہ ہندوستانی محض زیان تک محدود نہیں بلکہ اس کے خیال، سوچنے کے انداز اورطرز بیان میں بھی نمایاں ہے۔

    

غواصی کے کلام میں حقیقت پسندی

        اردو کے اکثر غزل گو شعرا کی طرح غواصی نے ہندوستان میں بیٹھ کر شیراز و اصفہان کے راگ نہیں الاپے۔ اس کے کلام میں عجمی لالہ زاروں وہاں کے  پرندوں، جانوروں، دریاؤں، پہاڑوں یا قصوں کے حوالوں کے بجائے ہندوستانی پرندوں پھولوں، پھلوں،  یہاں کے موسموں، نظاروں، در یاؤں وغیرہ کا ذکر جا بہ جا ملے گا۔ غواصی کی غزلوں میں ہندوستانی اقدار اور مقامی روایات و رجحانات کا احترام محوظ رکھا گیا ہے ۔ چنانچہ اس کے بیش تر اشعار میں حسن و عشق کے وہی مضامین اپناۓ گئے ہیں جو ہندوستانی ذوق کے مطابق ہوں۔ چند شعر ملاحظہ ہوں جن میں نہ صرف مقامی روایات کی ترجمانی کی گئی ہے بلکہ ان کے اشعار کے خالق کے طرز فکر اور متخیلہ پر بھی ہندوستانیت کی گہری چھاپ ہے۔


اگر ہور برمکی، عنبر، چندن ہور عود لوبھانی
یہ سب تج آنگ کی باسوں تھے پر مل پائے ہیں آلا

ملک دکھن میں حور تھے نادر ہوتوں پنچی ہے کر
ہے بے نہایت اے سکھی ملک دکھن کوں آج فرح

لال دو گال رنگ بھرے تیرے
عین جیوں نارنگیاں ہیں بنگالی

درس تیرا سو دین کا دیوا
لٹ تیری کفر کی ہے دیوالی

حال یکساں نہیں کہ جیوں جمنا
گہہ بہوں پور گہہ اتر جاؤں

رنگ بھریا منج گھر میں آج آیا بسنت 
غیب تھے نازا طرب لیایا بسنت

پانی میں چھپ رھیا نہ نکل لاج تے کمل
نازوک نرم دیک ترے دو ہنوارہات

کتا تج پھول کی خاطر کداں لگ
بھنور ہو یوں پھروں ہر ڈال ہر پات

تری ناسک پہ تھے قربان ہوتا ہر گھڑی چنیا
ترے بالاں پہ تھے قربان ہوتا ہر گھڑی بالا

بھنور کر جیوں کوں میرے ادک لبدائیا تیرا
کمل مکھ ہور نین نرگس رنگیلا گال گل لالہ


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے