Ad

دہلی میں اردو غزل کا عروج اور مومن و ذوق

 دہلی میں اردو غزل کا عروج اور مومن و ذوق

Dehli me urdu gazal ka urooj or momin o zouq


دہلی میں اردو غزل کا عروج اور مومن و ذوق
دہلی میں اردو غزل کا عروج اور مومن و ذوق



مومن خالص عشقیہ شاعر تھے ۔ انہوں نے معاملات عشق کو ہمہ رنگ انداز میں پیش کیا اور عشق کی متنوع کیفیات کی منھ بولتی تصویر کشی کی ۔ مومن کا اسلوب منفرد تھا ۔ وہ بھی غالب کی طرح غزل کے دو مصرعوں میں ایک وسیع خیال کو پیش کردیتےتھے ۔ انہوں نے بڑی خوبصورت تراکیب تراشیں۔ ایمائیت ان کے اسلوب کا خاص وصف تھا ۔ چند شعر ملاحظہ ہوں:


دیدۂ حیراں نے تماشا کیا 

دیر تلک وہ مجھے دیکھا کیا

کچھ قفس میں ان دنوں لگتا ہے جی

آشیاں اپنا ہوا برباد کیا

تم میرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

میرے تغیر رنگ کو مت دیکھ

تجھ کو اپنی نظر نہ ہو جائے

میں بھی کچھ خوش نہیں وفا کرکے

تم نے اچھا کیا نباہ نہ کی

دشنام یار طبعِ حزیں پر گراں نہیں 

اے ہم نفس نزاکت آواز دیکھنا

تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کرلے 

ہم تو کل خواب عدم میں شب ہجراں ہوں گے

ہر آن آنِ دگر کا ہوا میں عاشق زار

وہ سادہ ایسے کہ سمجھے وفا شعار مجھے

دہلی میں اردو غزل کا عروج اور غالب


مومن و ذوق

ذوق غالب اور مومن سے مختلف انداز کے شاعر تھے ۔ انہوں نے خالص اردو کو اظہار کا ذریعہ بنایا ۔ محاورہ بندی میں انھیں کمال حاصل تھا وہ ایک اچھے شاعر اور بڑے فن کار تھے ۔ انہوں نے صنائع و بدائع کا استمعال خوش اسلوبی سے کیا ۔ انہوں نے مروجہ اخلاقی قدروں کے ساتھ تہذیبی روایت کو اپنی شاعری میں اثر انگیز طریقے سے پیش کیا ۔ لیکن انکی فکر میں غالب کی سی وسعت اور گہرائی نہ تھی ۔ ذوق کے چند شعر:


لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے 

اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے

اے شمع تیری عمر طبیعی ہے ایک رات

ہنس کر گزار یا اسے رو کر گزار دے

احسان نہ خدا کا اٹھائے میری بلا

کشتی خدا پہ چھوڑ دوں لنگر بھی توڑدوں

یاں لب پہ لاکھ لاکھ سخن اضطراب میں

واں ایک خامشی تری سب کے جواب میں

خوب روکا شکایتوں سے مجھے 

تو نے مارا عنایتوں سے مجھے

مقدر ہی پہ گر سود و زیاں ہے

تو ہم نے یاں نہ کچھ کھویا نہ کچھ پایا

غالب اور ذوق کے معاصرین میں بہادر شاہ ظفر بھی ایم اہم شاعر تھے ۔ ان کی شاعری میں۔ ذاتی واردات اور ان کے عہد کے تاریخی واقعات کے اثرات دکھائی دیتے ہیں جن کی وجہ سے ان کے لہجے میں خستگی اور دردمندی پیدا ہوگئی تھی۔ انھوں نے غزل کی روایت کو خوش اسلوبی سے برتا ان کے استعاروں اور علائم میں سیاسی اور سماجی تلازمے بھی ملتے ہیں۔


بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی جیسی جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی


عمر دراز مانگ کر لائے تھے چار دن

دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنی خبر 

رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر 

پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر

تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا

ظفر آدمی اسے نہ جانئے

ہو وہ کتنا ہی صاحبِ فہم و ذکا

جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی

جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا

کوئی کیوں کسی کا لبھائے دل 

کوئی کیا کسی سے لگائے دل 

وہ جو بیچتے تھے دوائے دل

وہ دکان اپنی بڑھا گئے

اس دور کے غزل گو شاعروں میں شیفتہ اور مجروح کے نام بھی قابل ذکر ہیں۔

غالب، ذوق اور ان کے ہم عصروں کے بعد اسیر، جلال، تسلیم، امیر مینائی اور داغ نے غزل کا چراغ جلائے رکھا۔ ذیل میں ان شاعروں کے منتخب اشعار پیش کیے جاتے ہیں :


شیشہ ہاتھ آیا نہ ہم نے کوئی ساغر پایا

ساقیا لے تیری محفل سے چلے ، بھر پایا

اسیر لکھنوی

آج ساقی میں نہیں گو کہ مروت باقی

خیر زندہ ہے اگر یار تو صحبت باقی

اسیر لکھنوی

ہنستے ہیں گل بھی دیکھ کر، اپنی خبر نہیں

گویا چمن میں چاک گریباں ہمیں تو ہے 

تسلیم

کیا کہہ کہ عندلیب چمن سے نکل گئی 

کیا سن لیا گلوں نے کہ رنگت بدل گئی

تسلیم

گئی تھی کہہ کہ میں لاتی ہوں زلف یار کی بو

پھری تو باد صبا کا دماغ بھی نہ ملا 

جلال لکھنوی

گم جب سے کیے ہوش تری جلوہ گری نے

کیا کیا نہ خبر دار کیا بے خبری نے 

جلال لکھنوی

غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا

تمام رات قیامت کا انتظار کیا 

داغ دہلوی

جھکی ذرا چشم جنگ جو بھی

نکل گئی دل کی آرزو بھی

بڑا مزا اس ملاپ کا ہے

جو صلح ہو جائے جنگ ہوکر 

داغ دہلوی

شب وصال بہت کم ہے آسماں سے کہو

کہ جوڑ دے کوئی ٹکڑا شب جدائی کا

امیر مینائی

باغباں کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی

بھیجنی ہے اک کمسن کے لئے

امیر مینائی 

     


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے