Ad

محمد قلی قطب اور ہندوستانیت

محمد قلی قطب اور ہندوستانیت


محمد قلی قطب اور ہندوستانیت


محمد قلی قطب شاہ ہندوستانیت کا بہت بڑا پرستار ہے۔ اس کی رگ و پے میں ہندوستان کی تہذیب سرایت کر گئی ہے۔ وہ ہندوستان کی ہر نمایاں اور مشہور رسم اور تہوار کے علاوہ وضع قطع کو اپنے خیالات میں بسا لینا چاہتا ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ اس نے اپنے آباو اجداد کی روش سے ہٹ کر کی وضع قطع اور لباس اختیار کیا۔ قطب شاہی سلاطین میں وہ پہلا بادشاہ ہے جس نے داڑھی کی بجائے مونچھ رکھی۔ گلے میں ہندوؤں کی طرح کپڑا (انگ وسترم ) ڈالا اور قاقم وسنجان و سمور کے کوٹ اور کنچوں کی جگہ دکن کے موسم کے لحاظ سے دیسی ململ کے سادہ کپڑے زیب تن کیے۔ محمد قلی کی غزلیں نہ صرف ہندوستانی عیدوں، تہواروں، موسموں، پھلوں، پھولوں، پرندوں، کھیلوں وغیرہ کی مکمل ترجمانی کرتی ہیں بلکہ ہندوستانی عوام کے طور طریقوں، رسومات، معتقدات اور توہمات کی آئینہ دار بھی ہیں۔ محمد قلی کی تشبیہوں، استعاروں اور تلمیحوں میں بھی ہندوستانی تہذیب کی روح رچی بسی ہوئی ہے۔ محمد قلی کی تخلیقات کا بیشتر مواد اس کے گردوپیش کے حالات اور مقامی ماحول کے گونا گوں تجربات سے حاصل کیا ہوا ہے جو تشبیہوں، استعاروں، تلمیحوں اور اظہار بیان کے پیکروں، علامتوں اور کنایوں کے سہارے شعر کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔


کمل پھول پر تو بھنور ہے لذیذ

ولے مکھ پہ تجھ تک بھنور تھے لذیذ


کویل تیری بولاں تھے ہاری دسے


تری چال بد مست تھے لاجیں گج

نہیں ان میں اے بھید ہور اے شتاب


بے خانہ نین تیرے ہور بت نین کیاں پتلیاں

مج نین میں پوجاری پوجا ادھان ہمارا


کیس کھولے کرنے کنگی رات ہے ہم ناں کو وہ

مانگ کاڑے جب سکی وہ دیس ہم ناں کوں صُبا 


     ان اشعار میں محبوب کے حسین چہرے کو کنول، تل کو بھنور (بھنورا) آواز کو کویل کی سریلی آواز، خرام یار کو کبھی مست ہاتھی اور کبھی ہنس کی چال، قد کو سرو، بکھری ہوئی زلفوں کو رات، مانگ کو صبح، کجراری آنکھوں کو گہرے نیلے رنگ کے بادام، ٹھوڑی کو سیب اور دانتوں کو چارولیوں سے تشبیہہ دی گئی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے