Ad

دبستان لکھنؤ

دبستان لکھنؤ

Dabistan-e-lacknow

دبستان لکھنؤ
دبستان لکھنؤ



احمد شاہ ابدالی اور نادر شاہ کے حملوں کے بعد دہلی ویران ہوگئی۔ شعر و ادب کی بساط الٹ گئی ۔ اسی زمانے میں لکھنؤ میں اردو شاعری کا ایک مرکز ابھرنے لگا ۔ دہلی کے کئی شاعر ترک وطن کرکے لکھنؤ چلے آئے ۔ شجاع الدولہ اور انکے بعد آصف الدولہ اور شہزادہ سلیمان شکوہ نے مشاعروں کی سرپرستی کی۔ ابتداً لکھنؤ میں غزل کا وہی انداز برقرار رہا جس کو دہلی کے شعراء نے پروان چڑھایا تھا لیکن آگے چل کر لکھنؤ کے دربار کی عیش پرستیوں اور رنگ رلیوں نے جو پورے معاشرے پر اثر انداز ہوچکی تھیں اردو شاعری اور بالخصوص غزلیہ شاعری کے مزاج کو بدل دیا ۔ غزل میں خارجیت کا رنگ بڑھ گیا۔ حقیقی عشقیہ جذبات اور کیفیات کی ترجمانی کن ہوگئی اور معاملات عشق کو کھل کر بیان کیا جانے لگا ۔ دہلی کے شعرا نے محبوب کی جنس کو زیادہ تر پردے میں رکھا تھا اس طرح ایک ہی شعر میں عشق مجازی اور عشق حقیقی کا اظہار ممکن ہوگیا ۔ لکھنؤ کے شعرا نے یہ پردہ اٹھا دیا ۔ ان کے اشعار سے صاف ظاہر ہونے لگا کہ محبوب عورت ہے ۔ معاملات عشق کے بیان کی سطح بھی پست ہوگئی ۔ اس میں کلام نہیں کہ بعض شعرا نے رکاکت اور ابتدال سے اپنے کلام کو بڑی حد تک محفوظ رکھا۔ لکھنؤ کی غزل میں داخلی جذبات و کیفیات کے اظہار کے بجائے زبان و بیان پر قدرت جتانے کی کوشش ہونے لگی ۔ مشکل زمینیں اختراع کی گئیں ، خاص طور پر ایسی زمینیں جن میں ردیفیں اتنی طویل اور بے ہنگم ہوتی تھیں کہ غزل میں کوئی سلیقے کا مضمون نہیں باندھا جاسکتا تھا ۔ صنائع بدائع کا استمعال مقصود بالذات بن گیا اور محض محاورہ بندی کے لئے بھی شعر کہے جانے لگے ۔ لفظ پرستی کا رجحان کو ناسخ اور ان کے شاگردوں نے بڑھاوا دیا۔ مصحفی اور انشا جیسے شعرا کو دربار کے ماحول نے بگاڑ دیا ۔ مصحفی کے یہاں پھر بھی عشق کے سچے جذبات سے مملو شاعری کے نمونے مل جاتے ہیں ۔ آتش اگر چہ دربار سے وابستہ نہیں رہے ان کی شاعری اپنے عہد کے عام رجحانات سے محفوظ نہ رہ سکی پھر بھی ان کے کلام کا معتدبہ حصہ اچھی اور سچی شاعری کے زمرے میں آتا ہے ۔دہلی میں شاہ نصیر گزرے ہیں جن کی شاعری بڑی حد تک الفاظ کی بازی گری بن کر رہ گئی تھی۔

شعرائے لکھنؤ کے کلام کے چند نمونے ملاحظہ ہو

نظارہ کروں دہر کی کیا جلوہ گری کا

یاں عمر کو وقفہ ہے چراغ سحری کا
مصحفی

کیا کہوں حسن لطافت جامۂ شبنم سے ہائے
نکلا ہی پڑتا ہے وہ گورا بدن مہتاب سا
مصحفی

سر مشک کا تیرا ہے تو کافور کی گردن
نے موئے پری ایسے نہ یہ حور کی گردن
مصحفی

کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت  آگے  گئے باقی  جو  تیار  بیٹھے  ہیں
انشا

مجھے کیوں نہ آئے ساقی نظر آفتاب الٹا
کہ پڑا ہے آج خم میں قدحِ شراب الٹا
انشا

ہم نشیں مت ہو خفا گر نہ سنوں تیری بات
اک تصور ہے کہ وہ دھیان ہٹا دیتا ہے
جرات

رنگ یہ لائی کہ حسرت سے پسا جائے ہے دل
اس کے قدموں سے حنا ہائے عجب فن سے لگی
جرات

کسی کے محرم آب رواں کی یاد آئی
حباب کے جو برابر کبھی حباب آیا
آتش

زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
آتش

دیکھو تو کیا ہی دست نگر مجھ کو کردیا
کس ناز سے کہتے ہیں وہ مجھ کو دکھا کے ہاتھ
وزیر

کشتہ کیا ہے آگ بت وحشی مزاج نے
ہو شامیانہ گور پہ آہو کی کھال کا
رند

مہہ و انجم کو تو نے سب کی نظروں سے اتارا ہے
قیامت کام  دانی کا دو پٹا  چاند تارا  ہے
امانت

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے