Ad

میر تقی میر کی شاعری کا اسلوب


میر تقی میر کی شاعری کا اسلوب

میر تقی میر کی شاعری کا اسلوب

میرتقی میر غزل کے مسلم الثبوت استاد ہیں شعراء نے میر کے دیوان کی تعریف یہ کہہ کر کی ہے کہ ان کا دیوان " گلشن کشمیر " سے کم نہیں ہے۔ اسی طرح تذکرہ نویسوں نے بھی ان کی قادر الکلامی کا اعتراف کیا :

قائم چاند پوری : فروغ محفل سخن پردازاں، جامع آیات سخن دانی

گردیزی : سخن سنج بے نظیر 

میر حسن : شاعر دل پذیر 

مصحفی : در فن شعر ریختہ مرد صاحب کمال

شیفتہ : سخن ورِ عالی مقام

غالب ہی کی طرح دوسرے شعرا نے بھی میر کے با کمال شاعر ہونے کی توثیق کی ہے 

ناسخ :

شبہہ ناسخ نہیں کچھ میر کی استادی کا 

خود ہی وہ بے بہرہ ہیں جو معتقد(پیرو) میر نہیں

حسرت :

شعر میرے بھی ہیں پر درد و لیکن حسرت

میر کا شیوۂ گفتار کہاں سے لاؤں

میر تقی میر کے حالات زندگی

     اس میں شک نہیں کہ میر کا " شیوۂ گفتار " منفرد ہے ۔ مولوی عبدالحق نے لکھا ہے کہ ’’ ان کے اشعار پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ زبان کی سلاست و فصاحت کے ساتھ پیرایۂ بیان کس قدر دل کش نرالا اور پر تاثیر ہے "۔ 

     اہم بات یہ ہے کہ ان کے اشعار ایک فطری بہاؤ رکھتے ہیں۔ یہ شعوری آرائش، صنعت کاری اور تصنع سے پاک ہیں ۔ ان کے یہاں شعری اظہار کسی ارادی منصوبہ بندی کا مرہون منت نہیں ۔وہ بعض لکھنوی شعرا مثلا ناسخ کی طرح شعر کوالفاظ سے بوجھل نہیں بناتے ۔ وہ آمد کے شاعر ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے باطن سے اشعار یوں برآمد ہو تے ہیں جیسے کسی پہاڑ کے دامن سے کوئی چشمہ پھوٹتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ و ہ شعوری طور پر کسی موضوع یا مضمون مثلاً تاریخی حالات، ذاتی واردات، عشق یا تصوف کو ہاتھ نہیں لگاتے، وہ ان کوشعری عمل سے دور کھتے ہیں اور شعری عمل کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں ۔ میر تخلیق کے لاشعوری عمل کو روا رکھتے ہیں، تخلیقی عمل میں وہ خارجی اور داخلی دنیا میں فرق نہیں کرتے، وہ شعور اور لاشعور کی حدوں کو پار کر جاتے ہیں اور شخصیت کی گہرائیوں میں ڈوب جاتے ہیں ۔ 

دیکھو تو کس ادا سے کہتے ہیں میر شعر 

(چمک )دُر (موتی) سے ہزار چند ہے ان کے سخن میں آب




میر کے کلام کی سادگی

Meer Taqi Meer shayari 

میر نے جو زبان استعمال کی ہے وہ روایت نہیں بلکہ تازہ کار ہے ۔ یہ فارسی سے استفادے کو ظاہر تو کرتی ہے مگر اس سے مغلوب نہیں ۔ان کی زبان ہندوستانی سر زمین کی بو باس رکھتی ہے ۔ یہ نرمی سادگی اور مٹھاس رکھتی ہے ۔ ان کی شعری زبان آ نے والے کئی شعراء کے لیے سر چشمہ فیض کا درجہ رکھتی ہے۔ موجودہ دور میں عظمت اللہ خان، حفیظ جالندھری، میراجی، فراق، اور ناصر کاظمی خاص طور پر میر کی زبان سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ ناصر کاظمی ابن انشا اور خلیل الرحمن اعظمی نے تو با قاعدہ میر کے شعری آہنگ اور اسلوب کے احیا کی طرف دھیان دیا۔ میر الفاظ کے پارکھ ہیں وہ فرسودہ فارسی الفاظ کے بجائے ایسے الفاظ برتتے ہیں جو اصلی اور فطری ہیں، انھوں نے خود کہا ہے:

میر تقی میر کے اشعار کی تشریح

شعر میرے ہیں سب خواص پسند 

پر مجھے گفتگو عوام سے ہے  


     میر عوام سے گفتگو کرنے کے باوجود خواص سے رابطہ رکھتے ہیں ۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کون سا لفظ کہاں استعمال کرنا ہے او لفظ کس طرح شعری تجربے کی پہلو داری پر حاوی ہو جاتا ہے۔ یہ نادیدہ امکانات کو بروۓ کار لانے کا عمل ہے ۔ میر کا کمال یہ ہے کہ وہ سادہ الفاظ کو پیکروں میں ڈھالتے ہیں اور قاری حسیاتی پیکروں سے متاثر ہوتا ہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ انھوں نے فارسی تراکیب سے بھی خاصا کام لیا ہے لیکن ایسا کر تے ہوۓ بھی ان کو سادہ بیانی میں ضم کرتے ہیں

 چند فارسی تراکیب یہ ہیں:

میر تقی میر کی صوفیانہ شاعری

ہنگامہ گرم کن، دل ناصبور، شور نشور، چمن زادِ طیر، جگر چاکی اور سوختہ جاں وغیرہ

       چوں کہ میر شعر گوئی کے لیے زبان کو ایک نئے قالب میں ڈھالنے کی اہمیت سے واقف ہیں اس لیے وہ نئی ترکیبیں بھی وضع کرتے ہیں مثلا

قیامت شریر، دنیا دنیا تہمت، صحرا صحرا وحشت، غبار دل، ریگ رواں، شور بہاراں، غزالان شہری وغیرہ۔

      میر کا فنکارانہ شعور پختہ ہے وہ اشعار میں ابہام کو راہ دیتے ہیں شاعری برہنہ گوئی نہیں 

بقول علامہ اقبال : برہنہ حرف گفتن کمال گوئی ست


     میر " کمال گوئی " رکھتے ہیں ، وہ عام فہم الفاظ کو بھی تخلیقی طور پر استعال کرتے ہیں اور شعر کا تجربہ حجابات میں مستور رہتا ہے ۔ قاری شعر کی روح تک پہنچنے کے لیے ابہام کے پردوں کو اٹھاتے ہیں اور تہہ در تہہ معانی سے فیض اٹھاتے ہیں مثلا


صبح تک شمع سر کو دھنتی رہی

کیا پتنگے نے التماس کیا 

میر کا تصور حسن و عشق

شعر کی مبہم پہلوداری میر کے اشعار کو علامتی بناتی ہے۔ اس سے شعر روایتی معنی کا پابند نہیں رہتا بلکہ مختلف معانی رکھتا ہے ۔ میر نے خود کہا ہے :

میر صاحب کا ہر سخن ہے رمز

بے حقیقت بے شیخ کیا جانے 

میر کو علامتی اشعار وقت، عمر، عصر، آشوب، آگہی، جدائی اور اجاڑ پن کے معنی کا اشاریہ ہیں۔

بہر حال میر کا شعری اسلوب منفرد اور جدا گانہ ہے کہتے ہیں:

نہیں ملتا سخن اپنا کسو سے

     یہی وجہ ہے کہ ان کی آواز دور سے پہچانی جاتی ہے۔ یہ ایک شعری کردار کی آواز ہے جو حساس، دردمند اور مخلص شخصیت رکھتی ہے ۔ یہ آواز پرسوز اور مدھم ہے ، یہ لہجے کے اتار چڑھاؤ آہنگ، سرگوشی کا تخاطب اور بحریں طویل ہوں یا مختصر ، مترنم ردیف و قافیہ کے ساتھ خاص دلکشی رکھتی ہے :

Ugc net urdu syllabus material


(قرار۔ پائیداری)کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات

کلی نے یہ سن کر تبسم کیا 


چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر

منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے