Ad

قصیدے کے اجزائے ترکیبی

 

قصیدے کے اجزائے ترکیبی



قصیدے کی ہئیت
Qasida zouq NET JRF 

     قصیدے کے پہلے شعر کے دونوں مصرع ہم قافیہ ہم ردیف ہوتے ہیں اس کے بعد کے تمام اشعار کے ثانی مصرعے ہم قافیہ وہ ہم ردیف ہوتے ہیں یا صرف ہم قافیہ ( قصیدے عموماً غیر مردف لکھے جاتے ہیں ) قصیدے میں مضامین یا خیالات مسلسل اور مربوط ہوتے ہیں اور موضوع کے لحاظ سے ان کا عنوان بھی ہوتا ہے ۔ اس کا موضوع عشقیہ مضامین پر مشتمل ہوسکتا ہے یا رثائیہ بیانات کا حامل اور کبھی کبھی ہجویہ بھی۔   قصیدے کی پہچان کے لئے مولانا الطاف حسین حالی اپنی کتاب " مقدمہ شعر و شاعری " میں لکھتے ہیں :

    ٫ مدح ، مرثیہ اور قصیدہ میں ایک قدر مشترک ہے ، مرثیہ میں بھی مرنے والے کے فضائل بیان کیے جاتے ہیں۔ " صفحہ 188

     مدیحہ مضامین کی تکرار اور غیر معمولی مبالغہ آرائی کے سبب یہ صنف کسی حد تک بدنام بھی ہوئی یہاں تک کہ لفظ قصیدہ جھوٹی مداحی کو کہا جانے لگا۔ مداح اپنے زور بیان سے مدوح کو اس قدر اعلی و ارفع عظیم الشان بتاتا ہے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں رہتی ۔ شعرا ، حمدیہ ، نعتیہ ، منقبتیہ ، وصفیہ اور تاریخی قصائد کا بھی اہتمام کرتے ہیں ، قصیدے میں ایک سے زیادہ مطلع لکھے جاسکتے ہیں ۔ کبھی کبھی قصیدے کے درمیان شاعر قطعہ کے عنوان سے بھی آٹھ آٹھ دس دس شعر کہتا ہے ۔ طویل قصیدوں میں مطلعوں کی تعداد چار اور پانچ بھی ہوسکتی ہے ۔قصیدے میں یہ مطلع تسلسل سے بھی آتے ہیں اور کبھی اشعار کے درمیان بھی لکھے جاتے ہیں جس کے ذریعے ندرت و کمال کا پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ دو مطلعوں کے قصیدے کو " ذو المطالعین " اور دو سے زیادہ مطلعوں کے قصیدے کو " ذو المطالع " کہا جاتا ہے۔ 

قصیدے میں اشعار کی تعداد

قصیدے میں اشعار کی تعداد کے سلسلے میں بھی اختلاف رائے پایا جاتا ہے " کاشف الحقائق " میں امداد امام اثر نے قصیدے کے اشعار کی تعداد اکیس بتائی ہے۔ پروفیسر محمود الٰہی نے شمس قیس رازی کے حوالے سے قصیدے کو پندرہ یا سولہ شعروں تک محدود کیا ہے جب کہ رام بابو سکسینہ نے قصیدے کے لیے اشعار کی تعداد پچیسں بتائی ہے ۔ نجم الغنی صاحب بحرالفصاحت میں لکھتے ہیں :

      " کم تر قصیدہ وہ ہے جو سات شعر رکھتا ہو اور ریختہ میں قصیدے کے اشعار پندرہ شعر سے اور بقول انیس بیس (20) شعر سے کم نہیں ہوتے اور انتہا ستر (70) تک قرار دی ہے لیکن فصحاۓ متاخرین کے قصیدے دو دو سو ( 200 ) شعر تک پائے گئے۔ بعض شعراۓ فارسی نے ایک سو میں (120 ) شعر تک حد مقرر کی ہے اور عرب کے شعرا نے پانچ پانچ سو (500 ) اشعار کے قصیدے لکھے ہیں ۔ غلام علی آزاد بلگرامی سکتی المرجان میں لکھتے ہیں کہ میں نے قصیدے کی حد اکیس ( 21) تک مقرر کی ہے۔ " (صفحہ 81)

      اسی طرح ڈاکٹر ابو محمد سحر " اردو میں قصیدہ نگاری " میں قصیدے کے اشعار کی تعداد کے بارے میں لکھتے ہیں :

     قصیدے میں اشعار کی کم سے کم تعداد کسی نے سات (7) کسی نے بارہ کسی نے پندرہ ( 15 ) کسی نے اکیس (21 ) اور کسی نے پچیسں (25 ) بتائی ہے ۔ زیادہ سے زیادہ اشعار کے لیے عام خیال یہ ہے کہ کوئی حد نہیں لیکن بعض اہل قلم نے زیادہ سے زیادہ اشعار کی تعداد ایک سو بیس ( 120 )اور ایک سو ( 170) لکھی ہے بالعموم پانچ سے لے کر دو سو ( 200 ) اشعار تک قصائد میں ملتے ہیں (صفحہ 12 اور 13 )

قصیدے کے عناصر

اردو قصیدے میں وہی اجزا یا عناصر ہوتے ہیں جو کہ فارسی میں مروج تھے یعنی تشبیب ، گریز ، مدح ، مدعا ، دعا اور خاتمہ ۔ اجزائے ترکیبی کے لحاظ سے قصیدے کی دو قسمیں ہیں ایک مشبب اور دوسری مقتضب ۔ مشبب اس قصید ے کو کہتے ہیں جس میں تشبیب اور گریز کی پابندی ہو اور جس میں یہ پابندی نہ ہو ، اسے مقتضب کہا گیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ درباری یا مذہبی قصیدوں میں حسن طلب یا مدعا کے آخری حصے میں دعائیہ اشعار بھی شامل کر دیے جاتے تھے ۔

تشبیب 

     قصیدے کا پہلا جز تمہید ہے جسے تشبیب کہتے ہیں۔ یہ شباب سے مشتق ہے جس میں تمہیداً حسن و عشق یا پھر بہاریہ کیفیت یا کوئی اور مضمون باندھا جاتا ہے ۔ ’’ دریاۓ لطافت ‘‘ میں انشاء اللہ خاں تشبیب سے متعلق کہتے ہیں :

     " مذکورہ ابیات کو عموما تمہید کہتے ہیں لیکن اہلِ تحقیق تشبیب کا نام دیتے ہیں خواہ ان شعروں میں شراب و شاہد اور ایام جوانی کا ذکر ہو خواہ اور چیزوں کا ، اشعار میں ردیف قافیہ اور وزن کے تیور غزل جیسے ہوں‘‘ ( صفحہ 391 )

     ابو محمد سحر تشبیب کی یوں وضاحت کرتے ہیں : تشبیب سے وہ اشعار مراد لیے جاتے ہیں ۔ جو قصیدے کی ابتدا میں تمہید کے طور پر لکھے جاتے ہیں ۔ عربی شعرا اس میں عموما عشقیہ اشعار قلم بند کرتے ہیں ، اس رعایت سے اس کو تشبیب یا نسیب کے نام سے موسوم کیا گیا۔ فارسی اور اردو میں تشبیب میں عشقیہ مضامین کی تخصیص نہیں رہی ( اردو میں قصیدہ نگاری صفحہ 17 )


ذوق کے قصیدے کی تشبیب دیکھیے ۔

ہیں مرے آبلۂ دل کے تماشا گوہر 

اک گہر ٹونے تو ہوں کتنے ہی پیدا گوہر


نظر خلق سے ، چھپ سکتے نہیں ، اہل صفا 

تہہ دریا سے بھی جا ڈھونڈ نکالا گوہر


رزق تو در خورِ خواہش ہے پہنچتا سب کو

 ، مرغ کو دانہ ملا ، ہنس نے پایا گوہر


تشبیب میں اس طرح کے اشعار کے بعد مطلعِ ثانی کے اشعار دیکھے :

آج وہ دن ہے ، کہ اے خسروِ والا گوہر 

کوئی دے نذر تجھے لعل تو دریا گوہر


بحر و بر میں ہیں ، شہا تیرے مہیائے نثار

سیم سے زر تلک اور لعل سے لے تا گوہر


ہو ترے فیضِ قدم سے ، جو زمیں گوہر خیز

ہو نصیبِ صرفِ نقشِ کف پا گوہر


مشتری کہتے ہیں جس کو ، وہ اٹھا لایا چرخ

ٹوٹ کر ، جو تری سمرن سے گرا تھا گوہر 


     تشبیب میں جو اشعار پیش کیے جاتے ہیں وہ ممدوح کی شخصیت ۔ اس کے مرتبے کے عین مطابق ہوتے ہیں۔ در اصل تشبیب کی کامیابی کا سارا دارو مدار مداح اور ممدوح کا ربط اور تعلق اور اسی مناسبت سے اشعار کی پیش کشی ہوگی تا کہ قصیدے میں توازن برقرار ہے اور صیح معنوں میں قصیدہ کہلائے۔ یوں بھی تشبیب کے اشعار کی تعداد زیادہ نہیں ہوتی ۔ شعر الہند مصنفہ عبدالسلام ندوی نے تشبیب کی چار اقسام کا ذکر کیا ہے ۔ ( 1) بہاریہ (2) عشقیہ (3) حالیہ (4) فخریہ ۔ ان میں سے سے ہر ایک اپنے عنوان کے مطابق مضامین کی تفصیلات رکھتی ہے ۔ ( صفحہ 23) عام طور پر قصیدہ گو شاعروں نے تشبیب پر زیادہ توجہ دی ہے اور مدحیہ اشعار نسبتاً کم کہے ہیں ۔ 

گریز

      قصیدے کا دوسرا عنصر یا جزو گریز ہے ۔ گریز کی تعریف ابن رشیق نے اس طرح کی ہے " تشبیب سے مدح یا کسی دوسرے موضوع کی طرف کسی بہترین حیلے سے نکل جاؤ ( اردو میں قصید ہ نگاری کا تنقیدی جائزہ ( صفحہ 49 از محمود الٰہی ) تشبیب کے بعد شاعر کسی تقریب سے ممدوح کا ذکر چھیڑتا ہے۔ اس کو گریز کہتے ہیں ۔ بعض اوقات اس کو دوسر کش بیلوں کو اک جوے میں جوتنے سے تعبیر کیا جا تا ہے جس کا سبب یہ ہے کہ یہ حصہ تشبیب اور مدح کے لیے بے ربط اجزا میں ربط پیدا کرتا ہے ۔ گریز کا سب سے بڑا حسن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ تشبیب کہتے کہتے شاعر مدح کی طرف اس طرح گھوم جائے جیسے بات میں بات پیدا ہوگئی ہو۔ گریز ایک شعر سے بھی کیا جا تا ہے اور اس کے لیے ایک سے زائد اشعار بھی استعمال کیے جاتے ہیں ‘‘ ( صفحہ 22 ) گریز کو عربی میں توصل یا خروج بھی کہتے ہیں۔ ابتدا میں قصائد میں گریز کی جانب کوئی توجہ نہیں کی گئی لیکن عباسیہ دور میں اس میں کمال پیدا کرنے کا رجحان ملتا ہے۔ عموماً گریز کے لیے محض ایک آدھ شعر ہی کافی ہوتا ہے یا پھر شاعر اپنی استعداد ، ہنر مندی اور قابلیت کے مظاہرے کے لیے دو اور تین شعر کہہ کر قصیدے کی تیسری منزل کی طرف رجوع کرتا ہے ۔ گریز ، تشبیب اور مدح کی درمیانی کڑی متصور کیا جاتا ہے نجم الغنی خاں لکھتے ہیں :

     " تمہید کے بعد مطلب کی طرف متوجہ ہونے کو گریز اور حسن تخلص اور تخلیص کہتے ہیں اور جس مقام سے تمہید چھوڑ کر مطلب شروع کیا جائے الہ مقام کو مخلص کہتے ہیں ۔ قصیدے کا گریز اچھا ہونا چاہیے اور یہ مقام تمام قصیدے میں مشکل ہے کیونکہ دو مطالب نا آشنا کو باہم ربط دینا ایسا ہے جیسا دو وحشیوں کو آپس میں موافق کرنا۔ گریز تمام قصیدے کی جان ہے " ( بحر الفصاحت صفحہ 82 اور 85 )

      عربی اور فارسی کے بعد اردو کے شاعروں نے گریز پر بہ طور خاص اپنی توجہ مرکوز رکھی ۔ اس میں منطقی دلیل اور تسلسل کا خیال رکھا تا کہ قصیدے کا بانکپن برقرار رہے ۔ ذوق کے ایک قصیدے میں گریز کی مثال دیکھیے :

تشبیب کا آخری شعر

ہر روز جامِ بادۂ روشن کا مجھ کو شغل

ہے مثل شغل آئینہ و شغل آفتاب

گریز

پرہیز یہ مرا ہے کہ تقوی سے ہے گریز

تقویٰ مرا ہے یہ کہ ہے توبہ سے اجتناب


لیکن ہے اگر رحمت باری سے در فشاں

دامانِ تر مرا روشِ دامنِ سحاب

قصیدے میں گریز کے بعد مدح کی باری آتی ہے اور یہی مقصود قیصدہ ہے یا قصیدہ کی تکمیل کا مرحلہ ۔ مدح میں شاعر اپنے ممدوح کی تعریف و توصیف کرتا ہے ۔ اس حصے میں شاعر کا طرزِ تخاطب شاندار ، غیر معمولی اور متاثر کن ہوتا ہے اور کبھی کبھی یہ مبالغہ آرائی کی منزلوں کو چھو لیتا ہے۔ مدح میں زور تخیل کے کئی پہلو ایک ساتھ نظر آ تے ہیں ۔صلہ و ستائش کی تمنا، اپنے ممدوح کے اوصاف کا اظہار، شوکت لفظی کے ساتھ مختلف تشبیہوں، استعاروں سے ممدوح کی عظمتوں کا بیان، سبھی کچھ شاعر کے جذبات و احساسات کا ترجمان بن جاتا ہے ۔ مدحت طرازی میں شاعر کا لب و لہجہ اس کے مزاج و مذاق کا آئینہ دار بن جاتا ہے ۔ ممدوح سے ربط تعلق کا اظہار اس کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا ذکر ، قاری یا سامع پر راست اثر کرتا ہے ۔ قصیدے کا یہ حصہ منفرد ، غیر معمولی اور قابل قدر ہوتا ہے۔ شخصی قصائد خصوصاً بادشاہوں امیر و امرا کے عادت و اطوار ان کی کرم گستری ، داد و دہش ، عظمت و جلالت ایسی ہی مختلف خصوصیات کا اعادہ مدح کا جزوِ لازم ہوگا۔ عربی اور فارسی کی طرح اردو کے شاعروں میں ذوق اور سودا کے قصائد میں یہ رنگ و آہنگ صاف نظر آتا ہے۔ ذوق کے قصیدے کے یہ اشعار دیکھیے :

ذوق کا قصیدہ

اے خدیو داد گر نامی ببر ، فرخ صفت 

شاہِ والا ، جاہِ والا ، قدر والا منزلت 


ابر احسان و عطا سر چشمۂ جود و سخا

معدنِ علم و حیا ، کوہِ وقار و تمکنت


آسمانِ فضل و دانش ، کوکبِ برجِ شرف

ماہِ اوج منزلت مہرِ سپہرِ مکرمت


      شخصی قصائد کے علاوہ بزرگان دین کی مدح میں بھی اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ مدح کا نہج یا طریق نہ بدلے ۔ وہی اوصاف حمیدہ کا ذکر عظمت و بزرگی کا انداز عطا و بخشش کا قرینے کا مکمل اظہار ضروری ہوگا۔ پروفیسر سید جعفر " دکنی ادب میں قصیدے کی روایت " میں لکھتی ہیں : 

     " مدح میں شخصی مراتب کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔ جس کی تعریف کی جائے اس کے رتبے اور اس کی حیثیت کے مطابق مدح کی جانی چاہیے۔ ممدوح کی تعریف میں لب و لہجے کی گونج ، دبدبہ اور طمطراق کی بڑی اہمیت ہوتی ہے زور تخیل اور شکوہِ مضامین کے بغیر قصیدہ نگار اپنے منصب کا حق ادا نہیں کر سکے گا۔۔۔۔ پر اثر ترسیل ، تشبیہات کا اچھوتا پن ، تخیل کی بلند پروازی قصیدہ گوئی کے اہم محاسن تصور کیے جاتے ہیں صفحہ 33


       مدح کے بعد شاعر اپنے احوال کا تذکرہ کرتا ہے اور عرض مدعا کے تحت داد و دہش بذل و نوال کا خواہش مند ہوتا ہے اور سب سے آخر میں ممدوح اسکے عزیز و اقارب رشتہ داروں متعلقین کے لیے دعا اور دشمنوں و مخالفین کے واسطے بد دعا کرتا ہے ۔ چونکہ قصیدے کے اس حصے میں عرض حال ، حسن طلب اور دعا سے متعلق اشعار ہوتے ہیں اور اسی پر قصیدے کا اختام ہوتا ہے ۔ اس لیے یہ کسی قدر مختصر اور جامع ہوتا ہے تا کہ ممدوح کے لیے بارِ خاطر نہ ہو۔

ذوق کے قصیدے سے چند اشعار دیکھیے ۔ 

لکھے گر خامہ ترا وصفِ شمیمِ اخلاق 

تو ہر اک نقظہ ہو اک نافۂ مشک تبت


منتہی ہوں نہ کبھی تیرے صفات نیکو

گر بیاں کیجیے تا حشر صفاتِ بعد صفت


ذوق کرتا ہے ، دعائیہ پہ اب ختم سخن

کہ زباں کو ہے نہ یارا نہ قلم کو طاقت


عید ہر سال مبارک ہو تجھے عالم میں 

با شکوه و حشم و جاه و بہ عمر و صحت


خیر خواہوں کے ترے چہرے پہ ہو رنگِ نشاط

اور بد خواہوں کے رخسار پہ اشک حسرت

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے