دہلی میں اردو غزل کا عروج اور غالب
dehli me urdu ghazal ka urooj or ghalib
دہلی میں اردو غزل کا عروج اور غالب
دلی جب دوبارہ آباد ہوئی ، زندگی کی چہل پہل لوٹ آئی ۔ بہادر شاہ ظفر برائے نام بادشاہ تھے اصل عمل داری انگریزوں کی تھی ۔ اس دور غالب ، مومن اور ذوق جیسے با کمال شاعر غزل کے افق پر نمودار ہوئے۔ ان میں سے ہر شاعر کا اپنا ایک جدا گانہ طرز تھا ۔ غالب نے ابتدا میں بیدل کے طرز کو اپنایا ، اس کے علاوہ وہ سبک ہندی کے دیگر شاعروں، صائب، غنی کاشمیری وغیرہ سے متاثر تھے ۔ ان شعراء کے اثرات ، طرز و اظہار اور سلوک تک محدود تھے ۔ ابتدا میں غالب کی زبان فارسی زدہ تھی بعض غزلیں انہوں نے ایسی کہیں جن میں صرف فعل اردو ہے،فعل کو فارسی میں بدل دیا جائے تو پورا شعر فارسی ہوجائے جیسے
شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا
تماشائے بہ یک کف بردنِ صد دل پسند آیا
ردیف "آیا" کی جگہ "آمد" رکھ دیں تو یہ فارسی کا مطلع ہوجاتا ہے۔ غالب نے بعض احباب کے مشورے سے اپنا اسلوب بدلا اور سادہ زبان میں شعر کہنے لگے ۔ غالب اردو کے عظیم شاعر تھے ۔ انھوں نے غزل کو محض عشق مجاز کے تجربات اور جذبات تک محدود نہیں رکھا، اس میں فکر کے عناصر کا اضافہ کیا۔ انھوں نے حیات و کائنات کے بارے میں اپنی فکرِ محسوس کو بڑی گہرائی کے ساتھ موثر انداز میں پیش کیا۔ معنی آفرینی، غالب کی غزل کی اہم خصوصیت ہے۔ غالب آپ ے عہد کے جدید شاعر تھے ۔ انھوں نے آنے والے دور کے قدموں کی چاپ سن لی تھی ۔ یہی سبب ہے کہ ان کی شاعری میں آج کے عہد کی زندگی اور اس کے مسائل کا پرتو بھی جھلکتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ بڑے فن کار تھے ۔ زبان کے اظہاری اور ترسیلی امکانات کا انھوں نے بڑی خلاقی کے ساتھ استحصال کیا۔ چند شعر
ملاحظہ ہو:
دہلی میں اردو غزل کا عروج اور مومن و ذوق
سراپا رہنِ عشق و ناگزیر الفت ہستی
عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا
تماشائے گلشن ، تمنائے چیدن
بہار آفرینا ! گنہگار ہیں ہم
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
کوئی آگاہ نہیں باطن یک دیگر سے
ہے ہر اک شخص جہاں میں ورق ناخواندہ
حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے بھی
دوام کلفت خاطر ہے عیش دنیا کا
رہ میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
سب کہاں ، کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
میں نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
گردش ساغر صد جلوۂ رنگیں تجھ سے
آئینہ داری یک دیدۂ حیراں مجھ سے
تیری وفا سے کیا ہو تلافی کہ دہر میں
تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے
0 تبصرے