اقبال اور فراق
Iqbal or firaaq
علامہ اقبال
اسی زمانے میں غزل میں ایک مفرد آواز ابھری وہ اقبال کی تھی ۔ اقبال کی اہمیت یوں تو نظم نگار شاعر کی حیثیت سے زیادہ ہے لیکن اردو غزل کو ان کی جو دین ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ غزل کو اقبال نے نئے اسلوب ، نئی لفظیات اور نئے موضوعات سے روشناس کیا۔ ابتدائی دور میں اقبال غزل کی روایت کے دائرے میں رہ کر شعر کہتے رہے جس کے نمونے "بانگ درا " میں مل جاتے ہیں ۔ لیکن "بال جبریل" اور "ضرب کلیم" میں اقبال کی غزل نیا روپ دھارتی ہے۔ نظم کی طرح غزل کو بھی اقبال نے اپنے فلسفیانہ افکار کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ اقبال نے غزل میں جہاں کہیں اپنے خیالات کو غیر استعارتی اور غیر ایمائی انداز میں پیش کیا اور ایک حد تک برہنہ گفتاری سے کام لیا ان کی غزل سانچے کے اعتبار ہی سے غزل کہلانے کی مستحق ہے۔ اقبال کی غزل میں انفرادی شان اور عظمت وہاں نظر آتی ہے جہاں وہ غزل کے شعر کی بنیاد عام انسانی تجربات اور احساسات پر رکھتے ہیں یا جہاں انکی غزل کا واحد متکلم نوع انسانی کا نمائندہ بن کر کائنات میں انسان کے وجودی موقف کو اپنی فکر کا محور بناتا ہے ۔ غزل کے متصوفانہ اشعار میں ذات حق سے عشق کا اظہار کیا جاتا رہا ہے ۔ اقبال کی غزل کا واحد متکلم خلیفۃ الارض کی حیثیت سے ذات حق کو اپنا مخاطب بناتا ہے ۔ اس قبیل کو غزلوں کو پڑھتے ہوئے ہم خود کو ایک نئی فضا میں سانس لیتا محسوس کرتے ہیں ۔ ان غزلوں میں اقبال نے نئے استعاروں اور علائم کے ذریعے ایک نئی زبان کی تخلیق کی ہے ۔ دوسری طرف روایتی غزل کی لفظیات اور استعاروں کو نئی معنوی جہت دی ہے ۔
اقبال کی غزل کے چند شعر نمونتاً پیش ہیں :
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گل
یہی ہے فصل بہاری ؟ یہی ہے باد مراد؟
نہیں اس کھلی فضا میں کوئی گوشۂ فراغت
یہ جہاں عجب جہاں ہے نہ قفس نہ آشیانہ
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
عشق کی آج جست نے طے کردیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکوں
اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا
فراق گورکھپوری
اردو غزل میں ایک نیا موڑ آتا ہے۔ فراق گورکھپوری سے غزل میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ اردو غزل میں حسن کی تحسین روایت زدہ ہوچکی تھی، محبوب کا سراپا بندھے ٹکے استعاروں اور تشبیہوں کے ذریعے کھینچا جاتا تھا۔ غزل کی جمالیات فرسودگی کا شکار ہوگئی تھی۔ فراق نے غزل کو اس شکنجے سے آزاد کیا اور مشاہدۂ حسن سے پیدا ہونے والی حقیقی کیفیات کو بڑے فن کارانہ انداز میں تصویر کشی کی۔ حیات و کائنات کے مسائل پر انھوں نے نئے زاویے سے نظر ڈالی اور اپنے محسوسات کو رمزیہ انداز میں پیش کیا۔ فراق کی غزل کا خاص وصف اس کی ہندوستانیت ہے۔ انھوں نے سنسکرت جمالیات سے بھر پور استفادہ کیا
فراق کے چند منتخب اشعار پیش ہیں :
نگاہ ناز نے پردے اٹھائے ہیں کیا کیا
حجاب اہل محبت کو آئے ہیں کیا کیا
دل دکھے روئے ہیں شاید اس جگہ اے کوئے دوست
خاک کا اتنا چمک جانا ذرا دشوار تھا
یہ سہانی اداس تنہائی
لیتی ہے پچھلی رات انگڑائی
اک فسوں ساماں نگاہِ آشنا کی دیر تھی
اس بھری دنیا میں ہم تنہا نظر آنے لگے
منزلیں گرد کی مانند اڑی جاتی ہیں
وہی اندازِ جہانِ گزراں ہے کہ جو تھا
نہ پوچھ عرصۂ ہستی کی وسعت و تنگی
جو چل پڑے تو بیاباں رکے تو زنداں ہے
ماتھے پہ ترے صبح چمن کھیل رہی ہے
آنکھوں میں محبت کی کرن کھیل رہی ہے
ترے جمال کی تنہائیوں کا دھیان نہ تھا
میں سوچتا تھا مرا کوئی گم گسار نہیں
یہ زندگی کے کڑوے کوس، یاد آتا ہے
تری نگاہ کرم کا گھنا گھنا سایہ
جیسے کوئی سوئی دنیا جاگ اٹھے
اس کے بدن کی لویں ہیں یا نغمات سحر
کہاں وہ خلوتیں دن رات کی اور اب یہ عالم
کہ جب ملتے ہیں دل کہتا ہے کوئی تیسرا بھی ہو
0 تبصرے