Ad

محمد قلی قطب شاہ کی حالات زندگی

محمد قلی قطب شاہ کی حالات زندگی



محمد قلی قطب شاہ کی حالات زندگی


  ابو المظفر سلطان محمد قلی قطب شاہ، بانی مملکت گولکنڈہ ابراہیم علی شاہ کا تیسرا فرزند اور قطب شاہی سلطنت کا پانچواں فرما رواں تھا ، وہ 14 رمضان المبارک 973 ھ مطابق 14 اپریل 1565 کو بروز جمعہ گولکنڈہ میں پیدا ہوا، اس کی ولادت کے موقع پر گولکنڈہ میں کئی دنوں تک جشن کا اہتمام کیا گیا اور مسکینوں اور فقیروں کو انعام و اکرام اور خلعت سے نوازا گیا۔ مورخین کا بیان ہے کہ محمد قلی قطب شاہ کی ماں "بھاگیہ رتی" ایک ہندو خاتون تھی، محمد قلی کی تخت نشینی 15 سال کی عمر میں 988ھ/1580ء میں عمل میں آئی۔ اس نے کم و بیش اکتیس برس تک نہایت تزک و احتشام کے ساتھ حکمرانی کی اور 47 سینتالیس سال کی عمر میں 1020ھ/ 1611ء میں انتقال کیا۔


  محمد قلی کے معاصرین میں یہ عہد شمالی ہند میں مغل فرماں روا اکبر اعظم اور جنوبی ہند میں عادل شاہی حکمران ابراہیم عادل شاہ ثانی "جگت گرو"کا تھا۔ انگلستان میں یہ دور ملکہ الزبیتھ کا تھا اسے شیکسپئر ین دور بھی کہتے ہیں۔ اول الذکر دو سلاطین محمد قلی کی طرح ہندوستانی تہذیب و تمدن کے فروغ اور اپنی مملکت میں بسنے والے تمام طبقات کے مابین یک جہتی اتحاد اور رواداری کے جذبات کی ترویج کے سلسلے میں غیر معمولی شہرت رکھتے ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ مورخین جس تہذیب و تمدن کو "ہند المانی کلچر" کے نام سے یاد کرتے ہیں اس کے نمایاں خدوخال اکبر اعظم ،محمد قلی قطب شاہ اور ابراہیم عادل شاہ جگت گرو کے دور میں نظر آتے ہیں ۔


 مختلف تذکروں اور تاریخوں میں محمد قلی کے پانچ بھائیوں شاہ عبد القادر حسین قلی، عبد الفتاح ، خدا بنده، محمد امین اور دو بہنوں کا ذکر ملتا ہے۔ ایک بہن دکن کے مشہور صوفی حضرت حسین شاہ ولی سے بیاہی گئی تھیں اور دوسری شاہ مظہرالدین کی اہلیہ تھیں ۔


محمد قلی قطب شاہ کو خوش قسمتی سے ایک مستحکم اور طاقتور حکومت اپنے باپ سے ورثے میں ملی تھی ۔ اس کا دور حکومت دو ایک معمولی لڑائیوں کو چھوڑ کر بڑی حد تک امن و امان میں گزرا۔ یہ ضرور ہے کہ اندرون ملک اس کے مخالفین نے وقتافوقتا سازشیں کیں اور کبھی کبھی ہنگامے بھی کھڑے کیے لیکن محمد قلی کو انھیں کچلنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ محمد قلی کی سخاوت اور کشادہ دلی کا تذ کرہ کم و بیش تمام مورخین نے کیا ہے ۔ تخت نشین ہوتے ہی اس نے اپنے دربار کے امیروں، فوجی افسروں، شاعروں اور اہل کمال کو بلا تفریق مذبب و ملت بڑے بڑے انعامات اور اعزازات عطا کیے۔ اس کے دورحکومت میں ایران کے مشہور عالم میر مومن حیدر آباد آئے تھے جنھیں بادشاہ نے اپنا مشیر مقرر کیا تھا۔ سلطنت کے بیشتر کاروبار کی عام نگرانی میر مومن ہی کے سپر تھی۔ یہی سبب تھا کہ محمد قلی کو سیاسی فکروں سے آزاد رہ کر عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کا موقع مل گیا۔



محمد قلی کی تعلیم وتربیت اس کے بڑے بھائیوں شاہ عبدالقادر اور حسین قلی کے مقابلے میں ادھوری اور ناقص رہ گئی تھی ۔ اس نے متعدد اشعار میں اپنے آپ کو "اُمی" ان پڑھ لکھا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ تعلیم سے بالکل محروم تھا۔ یہ سہی ہے کہ اس کی تعلیم وتربیت اس کے بھائیوں کے نہج پر نہیں ہوئی تھی اور وہ علوم عربیہ ،فقہ، تصوف، منطق وغیرہ پرمہارت نہیں رکھتا تھا تا ہم فن شاعری کے رموز و آداب سے کما حقہ واقفیت رکھتا تھا اور اس نے اساتذۂ فارسی خاقانی، انوری، عنصری اور خصوصاً حافظ شیرازی کا بنظر غائر مطالعہ کیا تھا۔ حافظ شیرازی کا وہ پہلا متر جم ہے ۔ اس نے خواجہ حافظ کی متعدد غزلوں کا دکنی اردو میں منظوم ترجمہ کیا ہے ۔ نمونتاً دو اشعار کا ترجمہ ملاحظہ ہو ۔


گل بے رخ یار خوش نہ باشد 

بے بادہ بہار خوش نہ باشد


با یار شکر لب و گل اندام

بے بوس و کنار خوش نہ باشد 


پُھل بن رخ یار خوش نہ دیسے

بن مد پھلی جھاڑ خوش نہ دیسے

مو یار شکر لب و چنپا رنگ 

بنِ چُمن یار خوش نہ دیسے 



شہر حیدرآباد کا قیام 

محمد قلی قطب شاہ کے عہد کا ایک یادگار کارنامہ شہر حیدر آباد کا قیام ہے۔ محمد قلی کی بلند خیالی ایک وسیع اور متمدن شہر کی طلب گار تھی ۔ اس زمانے میں قلعۂ گولکنڈہ کے اطراف آبادی بے ہنگم طور پر پھیلتی جارہی تھی۔ آبادی کی ضروریات کے لحاظ سے یہ شہر نا کافی تھا۔ چنانچہ محمد قلی نے شہر گولکنڈہ کے قریب ایک وسیع اور منصوبہ بند شہر کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا۔ چار مینار اس شہر کا مرکزی مقام قرار پایا۔ اس کے اطراف چاروں جانب سیدھی سڑکیں بنائی گئی اور قرب و جوار شاہی محل تعمیر کروائے گئے۔ محمد قلی نے شہر کے قیام کے ساتھ ہی اس بات کا پورا لحاظ رکھا کہ اس میں ایک متمدن زندگی کی تمام ضرورتیں موجود ہوں۔ چنانچہ اس شہر میں بے شمار مسجدیں، خانقاہیں، مدرسے، عاشورخانے، لنگر خانے، مہمان خانے، اور کاروان سرائیں بنائی گئیں۔ 

محد قلی نے حیدر آباد کو دنیا کا ایک با رونق شہر بنانے کے لیے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ اس کو اپنے شہر سے اس قدر محبت تھی کہ وہ اس کی معموری کے لئے خدا سے دعا کرتا ہے کہ "اے خدا میرے شہر کوتو لوگوں سے اس طرح معمور کر دے جس طرح تو نے دریا کو مچھلیوں سے بھر دیا ہے"


تمدنی اور سماجی نقطۂ نظر سے محمد قلی کا عہد حکومت تاریخ دکن میں ایک یادگار دور کی حیثیت رکھتا ہے ۔ محمد قلی نے اس بات کی خاص طور پر کوشش کی کہ اس مملکت میں بسنے والے مختلف فرقوں کے درمیان یگانیت اور بھائی چارگی کے جذبات نشو و نما پائیں ۔


حیدرآباد کا قیام، چارمینار، محمد قلی کی تعلیم و تربیت، حیدرآباد منصوبہ بند شہر، سلطنت گولکنڈہ، محمد قلی قطب شاہ کی حالات زندگی، محمد قلی کی غزل گوئی، 


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے