Ad

غزل کے دیگر موضوعات ‏حیات ‏و ‏کائنات ‏زندگی

عشق مجاز اور تصوف کے علاو اردو کی غزلیہ شاعری کے دیگر موضوعات کا شمار نہیں ۔ حیات و کائنات کے گونا گوں مسائل پر غزل گو شاعروں نے غور و خوض کیا ،زندگی ہو برتا ، قریب سے دیکھا اور محسوس کیا   قوت متخیلہ سے کام لے کر ایک استعاراتی کائنات تخلیق کی جس کا مرکز انسان تھا۔ ان کے پیش نظرزند گی کے سبھی رنگ و روپ تھے۔ ایک طرف صدیوں کی تاریخ تھی، تہذیبی اور سماجی ورثہ تھا  مذہبی اور  اخلاقی قدریں تھیں  دوسری طرف انسان کے نفسیاتی  اور وجودی کے  مسائل تھے۔ غزلیہ شاعری نے انسانی زندگی کے سارے معاملات کا احاطہ کیا انہیں عشق کی زبان عطا کی ۔ غزل کا واحد متکلم عاشق ہے جس کےمعاملات محبوب سے بھی ہیں اور خدا سے بھی برسر اقتدار قوتوں اور سماج کے ٹھیکیداروں سے بھی ہیں  یہ عاشق ایک آزادمنش رند ہے ساری کائنات جس کے لیے سے کدہ ہے اس مے کدے کی اپنی قدریں ہیں ۔ وہ ریا کاری ،مکر وفریب، استحصال اور ظلم و استبداد سے نبردآزما ہوتا ہے۔ غزلیہ شاعری کا یہ کردار جو رند منش  عاشق ہے انسان کے وجوی کرب اور داخلی احساسات و جذبات سے بھی سرو کار رکھتا ہے۔ زندگی کی غایت کی تلاش اور مقاصد حیات کا تعین بھی اس کے فکر و وجدان کا مرکز ہیں ۔ غزل کے موضوعات اتنے کثیر ہیں کہ ان کی دوٹوک انداز میں درجہ بندی ممکن نہیں ۔ غزل کے موضوع کی شناخت بھی ایک مسئلہ ہے جس کا انحصار غزل کے شعر کی تعبیر و تشریح پر ہے۔ ذیل میں چند شعر پیش کیے جاتے ہیں جن میں غزل کے گونا گوں موضوعات کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے:

مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے
ولی

یہ حسرت رہ گئی کس کس مزے سے زندگی کرتے
اگر ہوتا چمن اپنا، گل اپنا، باغباں اپنا
مظہر جان جاناں

شور جنوں کا سرد ہے بازار ان دنوں
آوے بہار جلد الہی،  ہوا پھرے
عبدالحی تاباں

ہم نہ کہتے تھے کہ مت دیر و حرم کی راہ چل
اب یہ دعویٰ حشر تک شیخ و برمن میں رہا
میر تقی میر

لے کے کعبے سے کیا سیر میں مئے خانے تک
خانه دل ہی کی تعمیر بہت اچھی ہے
مرزا رفیع سودا

سو بھی نہ تو کوئی دم دیکھ سکا اے فلک
اور تویاں کچھ نہ تھا ایک مگر دیکھنا
درد

مصلحت ترک عشق ہے ناصح
لیکن یہ ہم سے ہو نہیں سکتا
احسن اللہ بیان

چلی بھی جا جرس غنچہ کی صدا پہ نسیم
کہیں تو قافلۂ نو بہار ٹھہرے گا
مصحفی

گل گراں گوش ، چمن صورت حیرانی ہے
کس گلستان سے ہمیں حکم غزل خوانی ہے
طالب علی خاں عیشی

مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت حیرانی ہے
ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا
مرزا غالب

قد و گیسو میں قیس و کوہ کن کی آزمائش ہے
جہاں ہم ہیں وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے
مرزا غالب

سرگرم رقص تازہ ہیں قربانیوں میں ہم
سرخی سے کسی کی آئے ہیں جولانیوں میں ہم
مومن خاں مومن

صیاد اسیر دامِ رگِ گل ہے عندلیب
دکھلا رہا ہے چھپ ک اسے آب و دانہ کیا
آتش

بیداد کی محفل میں سزاوار ہمیں تھے
تقصیر کسی کی ہو گنہ گار ہمیں تھے
آتش

آج مجھے کو دشت وحشت میں وطن یاد آ گیا
بوئے گل کو بعد بربادی چمن یاد آ گیا
ناسخ

کیا جائے یہ گیا تھا کس منھ سے روکشی کو
آئینہ واں سے لے کر خاک آرزو نہ آیا
شاہ نصیر

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں  ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
امیر مینائی

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں
مولانا الطاف حسین حالی

نہ سحر چشم جاناں ہے، نہ لطف غمزۂ ساقی
تو پھر صحن چمن میں دیده نرگس سے کیا حاصل
اکبر الہ آبادی

غنیمت ہے قفس فکر رہائی کیا کریں ہمدم
نہیں معلوم اب کیسی ہوا چلتی ہے گلشن میں
ثاقب لکھنوی

انھیں یہ فکر ہے ہر دم نئی طرز جفا کیا ہے
ہمیں یہ شوق ہے دیکھیں ستم کی انتہا کیا ہے
برج نارائن چکبست

تیری ہی رضا اور تھی ورنہ ترے بسمل
تلوار کے سائے میں بھی آرام نہ لیتے
فانی بدایونی

بے ذوق نظر بزم تماشا نہ رہے گی
منہ پھیر لیا ہم نے تو دنیا نہ رہے گی
فانی بدایونی

خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
حسرت موہانی

یہ مرحلہ بھی مری حیرتوں نے دیکھ لیا
بہار میرے لیے اور میں تہی دامن
جگر مرادآبادی

میں ہوں ازل سے گرم روِ عرصۂ وجود
میرا ہی کچھ غبار ہے دنیا کہیں جس
اصغر گونڈوی

چمن زار محبت میں خموشی موت ہے بلبل
یہاں کی زندگی پابندی رسم فغاں تک ہے
علامہ اقبال

منزلیں گرد کے مانند اڑی جاتی ہیں
وہیں انداز جہانِ گزراں ہے کہ جو تھا
فراق گورکھپوری

ایسا نہ ہو کہ تھک کہیں بیٹھ جائے دل
دیر و حرم میں گُم نگہہ نارسا نہ ہو
یگانہ چنگیزی

ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تک یہ ستم کی سیاہ رات چلے
مجروح سلطان پوری

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم کیسے مسیحا ہو شفاء کیوں نہیں دیتے
فیض احمد فیض

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے