Ad

اردو ‏میں ‏غزل ‏گوئی ‏کا ‏آغاز ‏اور ‏دکنی ‏غزل ‏حصہ ‏ج

اردو میں غزل گوئی کا آغاز اور دکنی غزل حصہ ب

Urdu me ghazal goyi ka aaghaz or dakkani gazal part B
اردو میں غزل گوئی کا آغاز
اردو میں غزل گوئی کا آغاز حصہ ج


سید ہاشمی بے جاپوری نے ریختی کو ایک علاحدہ صنف کی حیثیت دی۔ ہاشمی نے اپنی ریختیوں میں عورت کے جذبات و احساسات کی خوب ترجمانی کی ہے ۔ ان ریختیوں سے اس دور کی دکنی معاشرت پر روشنی پڑتی ہے ۔ عورتوں کی سامان آرائش ، ان کے عادات و اطوار ، اعتقادات اور توہمات کا پتہ چلتا ہے۔ ان ریختیوں میں دکن کی عورتوں کی زبان محفوظ ہوگئی:
سنگاری سات نئیں میرا موا سنگار کیا کرنا 
مسی ہور پان خوش بوئی پھول کا ہار کیا کرنا 

کہو انصاف سوں لوگاں گے گا کیوں اسے گھر میں 
سنگاتی چار مہینے لگ رہا جا جس کا لشکر میں

مرنے سوں جیو را نیچ ہے نئیں راضی جیوں بچھڑات پر
سکھ چین سب دل ہوردیدے کاں لگ لگائے کوئی باٹ پر

تمیں گئے پر میں اوڑی نئیں نوی جھلکاٹ کی چادر
پھٹی ہوئی اوڑلی جو میں پرانی پاٹ کی چادر

ولی کے عہد تک پہنچتے پہنچتے غزل کی زبان اور اظہار کے پیرایوں میں نمایاں تبدیلی ہوئی۔ دکنی کی شعری روایت فارسی کے قالب میں ڈھلنے لگی۔ ولی نے غزل میں خارجیت کا رنگ کم کیا اور اسے داخلی جذبات اور قلبی کیفیات کے اظہار کا ذریعہ بنایا ، ساتھ ہی زندگی کے گہرے تجربات کو اپنے اشعار میں سمویا۔ ولی کے شعر سادہ پرکار ہوتے ہیں ۔ ولی نے مختلف صنائع کا استمعال کیا ۔ ایہام کی صنعت کو بھی رواج دیا ۔ چند شعر پیش ہیں:

اے نور جان و دیدہ ترے انتظار میں 
مدت ہوئی پلک سوں پلک آشنا نہیں

جسے عشق کا تیر کاری لگے
اسے کیوں نہ عشق بھاری لگے

مت غصے کے شعلے سوں جلتے کوں جلاتی جا
ٹک مہر کے پانی سوں یہ آگ بجھاتی جا 

مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے 

تجھ لب کی صفت لعل بد خشاں سے کہوں گا
جادو ہیں ترے نین غزالوں سے کہوں گا
سراج اورنگ آبادی کی ابتدائی دور کی شاعری میں دکنی اور فارسیت کے دونوں رنگ ملتے ہیں ۔ لیکن آگے چل کر فارسی کا رنگ غالب آگیا ۔ سراج اپنی چند غزلوں اور اشعار غزل کے باعث صوفی شاعر کے حیثیت سے مشہور ہیں لیکن ان کا زیادہ ترکلام عشق مجاز کے جذبات و کیفیات کا ترجمان ہے۔ ان کی غزل کے موضوعات متنوع ہیں ۔ سراج نے اپنی شاعری کو صنائع بدائع سے نکھارا اور کہیں کہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ لکھنؤ کے دبستان شاعری کے پیش رو ہیں ۔چند شعر ملاحظہ کیجئے :

دامن تلک بھی ہائے مجھے دسترس نہیں 
کیا خاک میں ملی ہیں مری جاں فشانیاں

ہجر کی راتوں میں لازم ہے بیان زلف یار
نیند تو جاتی رہی ہے قصہ خوانی کیجئے

ڈورے نہیں ہے سرخ تری چشم مست میں
شاید چڑھا ہے خون کسی بے گناہ کا 

ترے دہن کی مسی سے مجھے ہوا معلوم 
نماز شام کا ہے وقت اب نہایت تنگ

شعلہ رو جام بکف بزم میں آتا ہے سراج 
گردن شمع کوں کیا باک ہے ڈھل جانے کا

اے سراج آب خضر نئیں درکار 
رشتۂ زلف بس ہے عمر دراز 

نہ پوچھو خود بہ خود کرتا ہوں تعریف اس کے قامت کی 
کہ یہ مضمون مج کوں عالم بالا سے آتے ہیں 

راہ خدا پرستی اول ہے خود پرستی 
ہستی میں نیستی ہے اور نیستی میں ہستی
خبر تحّیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے