Ad

ولی کے کلام میں تشبیہات و استعارات

 

ولی کے کلام میں تشبیہات و استعارات



ولی کے کلام میں تشبیہات و استعارات


ولی کے کلام میں تشبیہات و استعارات کا استعمال بھی بہت اہم ہے ۔ انھوں نے مروجہ تشبیہات کو تازگی اور توانائی بخشی۔ اس کے علاوہ نئی تشبیہات اور استعارے وضع کیے جنھوں نے غزل کے دامن کو وسعت دی اور اظہار و بیان کے نئے راستے اور انداز پیدا کیے۔ یہاں چند اشعار بہ طور مثال پیش کیے جارہے ہیں:


صنعت کے مُصوّر نے صباحت کے صفحہ پر

تصویر بنائی ہے تری نور کو حل کر


کیا ہوسکے جہاں میں ترا ہمسفر آفتاب

 تج حُسن کی اگن کا ہیں ایک اخگر آفتاب


تجھ مکھ کی جھلک دیکھ گئی جوت چندر سوں

تجھ مکھ پہ عرق دیکھ گئی آب گہر سوں


نین دیول میں پہلی ہے ویا کعبے میں ہے اسود

ہرن کا ہے یو نافہ یا کٹول بھیتر بھٹور دستا


دونوں جہاں کوں مست کرے ایک جام میں

انکھیوں کا ترے عکس پڑے گر شراب میں


موج دریا کی دیکھنے مت جا 

دیکھ اس زلف عنبریں کی اوا


حسن ہے دام بلا زلف ہے دو کالے ناگ

جس کو کالے نے ڈر سا اس کوں جلانا مشکل


مکھ تراجیوں روز روشن زلف تیری رات ہے

کیا عجب یوں بات ہے یک ٹھار دن ہور رات ہے



ولی کے کلام میں تشبیہات و استعارات


     تشبیہات و استعارات کی مدد سے ولی اپنے محبوب کی جو تصویر پیش کر تے ہیں اس کی محبت میں ولی اپنے عشق کی جو روداد بیان کر تے ہیں اس میں ایک مخصوص قسم کی شائستگی پائی جاتی ہے بوالہوسی اور ہرجائی پن کے بجاۓ وفاداری اور پاس عشق ملتا ہے سنجیدگی، گہرائی ضبط اور ٹھہراؤ نظر آتا ہے۔ ان کے عشق کا دائرہ بے حد وسیع ہے۔ ان کے نزدیک عشق و محبت سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں تھی۔ ان کا کلیات ان کی عاشق مزاجی اور حسن پرستی کا مرقع ہے۔ ان کے کلام میں جو خاص درد اور مٹھاس نمایاں ہے غالبا وہ ان کی حقیقی اور بے لوث محبت کی وجہ سے ہے ۔ انھوں نے اپنی بے لاگ محبت کا اظہار کئی طرح سے کیا ہے مثال کے طور پر چند اشعار زیل میں درج کیے جارہے ہیں :


 عارفاں پر ہمیشہ روشن ہے

کہ فن عاشقی عجب فن ہے


پاک ہازوں سے یہ ہوا معلوم 

عشق مضمون پاک بازی ہے


مجھے دل کے آ چمن میں کر یک نظر تماشا

داغاں کے ہے گلاں سوں روشن یوں باغ میرا


 تج عِشق میں ولی کے انجھو ابل چلے ہیں

اے بحر حُسن دیکھ آ اس پور کا تماشا


 بے منت شراب ہوں سرشار انبساط

تجھ نین کا خیال مجھے جام جم ہوا


 وو مرا مقصود جان و تن ہوا 

جس کا مجھ کوں رات دن سمرن ہوا


مثل میناۓ شراب بزم حسن

حوض دل تج عکس سوں روشن ہوا 


 بے کسی کے حال میں یک آن میں تنہا نہیں

غم ترا سینہ میں مرے ہمدم جانی ہوا


 ہر درد پر کر صبر ولی عشق کی راہ میں 

عاشق کوں نہ لازم ہے کرے دکھ کی شکایت


کئی بار لکھا اس کی طرف نامہ کوں لیکن

ہر بار مٹا اشک نے مجھ نامے کو تر کر


 اس صاحب دانش سوں ولی ہے یہ تعجب

یک بارگی کیوں مجھ کوں گیا دل سے بسر کر


 اے جان ولی لطف سوں آ بر میں مرے آج

مجھ عاشق بے کل ستی مت وعدۂ کل کر


گلی سوں نیہہ کی کیوں جا سکوں ولی باہر

ہوئی ہے خاک پری رو کی رہ کی دامن گیر 


دو جا نہیں کچھ مدعا اس عاشق جاں باز کوں

ہے آرزو دل میں مرے پتیم کے ملنے کی فقط


 قرارنہیں ہے مرے دل کوں اے سجن تجھ بن 

ہوئی جو دل میں میرے آہ شعلہ زن تجھ بن


یہی ہے آ رزو دل میں کہ صاحب در دکنی جاکر

   ہمارے درد کی بات اں کہیں اس پی پیارے کوں 


  

 ولی کا عشق خیالی نہیں بلکہ حقیقی ہے۔ ولی نے مجازی عشق کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد اس عشق کے سرے عشق حقیقی سے ملادیے ہیں کہتے ہیں:


 در وادی حقیقت نے جن قدم رکھا ہے

اول قدم ہیں اُس کا عشق مجاز کرنا



ولی دکنی کی ریختہ گوئی، ولی دکنی کی عشقیہ شاعری، ولی دکنی کی غزلوں کی تشریح، عشق مجازی و عشق حقیقی، ولی کےکلام میں تشبیہات و استعارات، تشبیہ و استعارے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے