Ad

جدید اردو غزل جدیدیت کی تحریک کا زوال

جدید اردو غزل جدیدیت کی تحریک کا زوال

جدید اردو غزل جدیدیت تحریک کا زوال


بیسویں صدی کی ساتویں دہائی کے گزرتے گزرتے جدیدیت کی تحریک ماند پڑ گی لیکن اس کے اثرات آٹھویں دہائی کے آغاز تک باقی رہے۔ گذشتہ بیسں پچیس برسوں میں ملک کی سیاسی، سماجی زندگی میں بڑی تبدیلیاں ہوئیں اور سیاسی معاشی طور پر عالمی مناظر نامہ بھی بدل گیا۔ فرد کی تنہائی اور اجنبیت کے احساسات جو مشینی زندگی کے زائدہ تھے، رفتہ رفتہ ختم ہونے لگے ۔ سوویت یونین کے زوال اور امریکی سامراج کی بالا دستی نے نو آزاد نو آبادیاتی ملکوں کی تیسری دنیا کو نئے مسائل سے دوچار کیا ۔ اندرون ملک فرقہ وارانہ طاقتیں زور پکڑنے لگیں۔ غربت، جہالت اور بے روزگاری میں یک گونہ اضافہ ہوا۔ لسانی اور مذہبی اقلیتوں میں جو مایوسی کا شکار تھیں، بیداری پیدا ہوئی اور وہ جہد للبقا کی کشمکش سے دوچار ہوئیں ۔ شاعری میں زندگی کے بارے میں قدیم تصورات کا عمل دخل کم ہو گیا ۔ شاعر اپنے انفرادی اور سماجی ردعمل کا آزادانہ اظہار کرنے لگے ۔ جدید تر غزل میں ہجرت اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کو خاص طور پر موضوع بنایا گیا ۔ دہشت گردی اور فسادات نے جو تباہی مچائی اور خوف کا ماحول پیدا کر دیا اس کی عکاسی بھی جدید غزل میں ملتی ہے۔ اس کے علاوہ ظلم  اور نا انصافی کے خلاف جدید تر شاعر شدت سے احتجاج کرتے ہیں ۔ دور حاضر کی غزل کو مابعد جدید غزل کہنا شاید درست نہ ہوگا کیوں کہ مابعد جدیدیت کے پورے خد و خال ہمارے ادب میں ابھرے نہیں ہیں اور خور مابعد جدیدیت کی اصطلاح پوری طرح واضح نہیں ہے۔ ذیل میں ہم عصر غزل سے چند شعر نمونتا پیش کیے جاتے ہیں:

یہی کٹے ہوئے بازو علم کیے جائیں
یہی پھٹا ہوا سینہ سپر بنایا جائے
عرفان صدیقی

ہے اجڑتے شہر کا فیصلہ سیہ حاشیے پہ لکھا ہوا
جو ہوا سے نکلا غبار تھا جو بچا گھروں میں ملال تھا
مصور سبزواری

منتشر ذہن لیے دھوپ میں آ بیٹھا ہوں
چھن گئی آج مرے خواب کی دولت مجھ سے 
غلام حسین ساجد

چاند اکیلا افسردہ ہے رات کی محفل میں
باقی دنیا لگی ہوئی ہے جشن منانے میں 
عبید صدیقی

کھا گئی ذوق سفر آسائش شہر دمشق 
سر میں ہجرت کا نشہ اب وہ نہیں جو پہلے تھا 
زکی بلگرامی

کانچ ہی گڑیا دیکھی ہر طرف منڈیروں پر 
آب و دانہ کیا دیں گے ایسے گھر پرندوں کو
مصطفی شہاب

ہمارے دن ہمارے واسطے اک بوجھ بن جاتے 
اگر راتوں پہ خوابوں کی نگہبانی نہیں ہوتی
مہتاب حیدر نقوی

گھر سے چلو تو چاروں طرف دیکھتے چلو
کیا جانے کون پیٹھ میں خنجر اتار دے
اسلم الہ آبادی

سپاہ مکر و ریا ساحلوں پہ خیمہ زن
غریق دجلۂ خوں ہیں شجاعتیں ساری
اسعد بدایونی

رہ گیا میں اجنبی صحرا میں سائے ڈھونڈتے
میرے آنگن کے شجر کتنے تناور ہوگئے
اعتماد صدیقی

کوئی اگر طلب کرے تم سے حساب تیرگی
صاحب اختیار ہو آگ لگا لیا کرو
قاسم پیر زادہ

ساحل پہ جلا ڈالیں گے سب کشتیاں لیکن
ثابت تمھیں ہم اپنے سفینے نہیں دیں گے
صلاح الدین نیر

پتے چھٹر کی رت میں کتا سبک بار ہے وہ پیڑ
جس کے بدن پہ دیر تک پتوں کا بوجھ تھا
صدیقہ شبنم

ہجر و وصال چراغ ہیں دونوں تنہائی کے طاقوں میں
اکثر دونوں گل رہتے ہیں اور جلا کرتا ہوں میں
فرحت احساس

کھلیں آنکھیں تو خائف تھا کہ دنیا دیکھتی ہے سب
اور آنکھیں بند کرلی تو دنیا دیکھتا ہوں میں 
شہپر رسول

نیند اڑا دیتی ہے پہلے آنکھوں سے
ہر آہٹ پھر رخصت ہونے لگتی ہے
نعمان شوق

حال اپنا جو چھپانا ہی کسی کو ہے تو
گھر کا کوڑا بھی نہ دروازے کے باہر پھینکنا
رحمٰن جامی

راتیں علیل صبح کا چہرہ بجھا ہوا
اس دور کا بدن ہے لہو تھوکتا ہوا 
علی الدین نوید

ویسے بھی اب دلوں میں تعلق نہیں رہا
کیوں درمیاں اٹھاتے ہو دیوار بے سبب
خالد سعید

جانے کدھر کو اڑ گئیں لمحوں کی تتلیاں
یادوں کی انگلیوں پہ فقط رنگ رہ گیا
ارشد جمال

کیا دیکھتے ہو راہ میں رک کر یہاں وہاں 
ہے خاک و خوں کا ایک سا منظر یہاں وہاں
محسن زیدی

آگ برسا کر فضا سے جیت لوگے تم زمیں
پر حکومت کے لئے آدمی بھی چاہیے 
خورشید اقبال

اک دوسرے کو شک کی نظر سے تکا کیے 
ہمسائے سے جو اب کہ مرا سامنا ہوا
احسن رضوی

سوویت یونین کے زوال  امریکی سامراج جدیدت تحریک پاکستانی اردو ادب بیسویں صدی کی شاعری اردو سلیبس بیسویں صدی کے شعرا اردو غزل جدیدیت کی تحریک کا زوال

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے