Ad

محمد قلی کی غزل گوئی اظہار بیان کی سادگی

 

 محمد قلی کی غزل گوئی اظہار بیان کی سادگی


محمد قلی کی غزل گوئی اظہار بیان کی سادگی


     محمد قلی قطب شاہ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر ہے۔  گولکنڈے کے چھٹے حکمراں اور محمد قلی کے بھتیجے اور داماد سلطان محمد قطب شاہ نے 1616 میں کلیات محمد قلی کو مرتب کرکے اس پر ایک منظوم مقدمہ بھی تحریر کیا تھا۔  محمد قلی کو اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر ہونے کے علاوہ یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے صنف  غزل پر سب سے پہلے با قاعد طبع آزمائی کی ۔ تعداد اور تنوع کے اعتبار سے جتنی غزلیں محمد قلی قطب شاہ کے یہاں ملتی ہیں اتنی دکنی اردو کے کسی اور شاعر کے دیوان میں نہیں ملتیں ۔


      محمد قلی نے ایک ایسے دور میں غزل کی صنف پر خصوصی توجہ دی جب کہ دبستان دکن میں مثنوی کا طوطی بول رہا تھا۔ محمد قلی سے قبل دکنی اردو میں غزل کی روایت نہایت کمزور تھی۔ صرف مشتاق، لطفی، فیروز، محمود اور ملاخیالی کی اکا دکا اور متفرق غزلیں ہی کل کائنات غزل تھی ۔ محمد قلی نے یوں تو تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن بنیادی طور پر وہ غزل کا شاعر ہے۔  مثنویوں اور رباعیوں کو چھوڑ کر اس کا سارا کلام غزل کی ہئیت میں ہے یہاں تک کہ اس کی وہ تخلیقات بھی جنھیں ڈاکٹر زور اور ڈاکٹر سیدہ جعفر نے عنوانات قائم کر کے نظم سے تعبیر کیا ہے۔ دراصل محمد قلی کی مسلسل اور مربوط غزلیں ہی ہیں اور خود محمد قلی نے ایسی تخلیقات کے لیے ”غزل“ کی اصطلاح استعمال کی ہے ۔ جیسے "غزل مرگ" ، "غزل سوری"، "مبعث کا غزل" وغیرہ


نبی صدقے کھیا ہے قطب مبعث کا غزل رنگیں

کہ اس کی تازگی ہور روشنی تھے ہے جہاں روشن


محمد قلی ایک پر گو اور قادر الکلام شاعر تھا اس کی ضخیم کلیات پچاس ہزار ابیات پر مشتمل ہے۔ اس کی موزونی طبع کا یہ عالم تھا کہ وہ ہر روز اسی طرح شعر کہنے پر قادر تھا جس طرح دریا میں روز موجیں اٹھتی ہیں اس کے باوجود دریا کی روانی میں فرق نہیں آتا چنانچہ محمد قلی قطب کہتا ہے۔


صدقے نبی قطب شاہ یوں شعر بولے ہر دن

دریا کوں روز جوں ہے موجاب کا طلوع 


اظہار بیان کی سادگی


     محمد قلی کی غزل گوئی کی سب سے نمایاں خصوصیت اظہار بیان کی سادگی ہے۔ وہ اپنے جذبات و احساسات اور مشاہدات زندگی کو سیدھے سادے انداز اور سہل زبان میں پیش کرتا ہے ۔


نین تیرے دو پھول نرگس تھے زیبا 

نزاکت ہے تجھ مکھ میں رنگیں چمن کی


صباحی او مکھ دیکھ پینا شراب 

فرح بخش ساعت میں لینا شراب 


ترے نیہہ بن جیونا منج نہ بھاوے

مسیحا نمن آپ دم سوں جلا منج



محمد قلی کی زندگی سراسر عیش کی زندگی تھی۔ شراب نوشی اور عشق بازی اس کے محبوب مشاغل تھے۔


شراب ہور عشق بازی باج منج تھے نارھیا جائے

کہ یو دو کام کرنا کر لئی سوگند کھایا ہوں 


The famous Padam writer in the court of md.quli Qutub Shah 

     محمد قلی ایک کثیرالمحبوب شاعر ہے۔ اس کے محلوں میں کئی ملکوں کی متعدد حسینائیں موجود تھیں۔ بادشاہ وقت ہونے کی وجہ سے اس کو کبھی کسی محبوبہ کا انتظار نہیں کرنا پڑا بلکہ اس کی محبوبائیں خود اس کے درشن کے لئے ہمیشہ آنکھیں بچھائیں رہتی تھیں۔ اس لیے اس کی آرزوؤں اور تمناؤں کے پورا نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ محمد قلی کے کلام میں فکر  کی گہرائی یا رنج و الم کے جذ بات ملیں گے اور نہ بد نصیبی یا ناکامی کا شکوہ ملے گا۔ اس نے اپنی زندگی کی بہاریں عیش و نشاط اور راگ رنگ میں گزاریں اس لیے اس کی شاعری میں رنگ رلیاں اور مستیاں ہیں، رنگینی و رعنائی ہے، سیرابی و سرمستی ہے، تازگی و شگفتگی ہے۔ غرض آسودگی کے تمام روپ اس کی غزلوں میں جلوہ گر ہیں ۔ اس نے اپنے آپ کو مسرور رکھا اور خوشی کے اظہار کے لیے جھوم جھوم کر گیت گائے ہیں۔


سجن کے ہونٹ امرت کا لذت یک دیس چاکے تھے 

سو او لذت کوں اجنوں لک کیا ہے مج رسن تعویذ


پیاسوں رات جاگی ہے سو دستی ہے سو دھن سر خوش 

مدن سر خوش، سین سر خوش، انجن سر خوش، نین سر خوش

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے