Ad

غزل کی صنف اور ہئیت

غزل کی صنف اور ہئیت

 غزل کی صنف اور ہئیت 

    عورتوں سے یا عورتوں کے بارے میں بات کرنے کو غزل کہتے ہیں گویا اس کا دائرہ کار حسن پرستی اور عشق مجاز ہے    ۔شمس قیس رازی نے غزل کی الگ توجیہ کی ہے ۔ہرن کو غزال کہتے ہیں اور غزال کی ایک خاص آواز کو غزل الکلب کا جاتا ہے ۔جب ہرن کوشکاری کتے گھیر لیتے ہیں تو وہ سہم جاتا ہے اور اس کے حلق سے درد بھری آواز نکلتی ہے ۔ شکاری کتے اس آواز سے متاثر ہوکر اس کا تعاقب چھوڑ دیتے ہیں ۔ اس آواز میں مایوسی کے ساتھ امید کی کیفیت بھی ہوتی ہے۔ اس تعریف کی رو سے غزل عشقیات سے نکل کر زندگی کی کشمکش ، انسان کی کاوشوں اور امید و بیم کی حالت کو اپنے دائرے میں لے لیتی ہے۔

      عربی میں قصیدے کی تمھید کو تشبیب ، نسیب اور جس تمہید میں محبوب کا سراپا بیان کیا جائے اسے غزل کہتے ہیں۔ قصیدے کی صنف عربی سے فارسی میں پہنچی ۔فارسی گو شاعروں نے غزل کو  قصیدے سے علاحدہ کرکے ایک مستقل صنف بنادیا ۔قصیدے کی طرح غزل کا پہلا شعر جس کے دونوں مصرع ہم قافیہ ہوتے ہیں مطلع کہلاتا ہے۔ غزل کے باقی اشعار کے ہر دوسرے مصرع میں قافیے کی پابندی کی جاتی ہے اور ہم قافیہ الفاظ لائے جاتے ہیں غزل کا آخری شعر مطلع کہلاتا ہے جس میں شاعر اپنا . تخلص لاتا ہے غزل میں کم سے کم سات اور زیادہ سے زیادہ اکیس شعر ہوتے ہیں ۔لیکن اس کی سختی سے پابندی نہیں کی جاتی ۔غزل میں قافیہ لانا تو لازمی ہے ۔ اس کے ساتھ ردیف کا اضافہ کیا گیا ۔ردیف وہ لفظ یا الفاظ ہیں جو قافیے کے بعد لاتے ہیں اور ہر شعر میں ان کی تکرار ہوتی ہے۔ مشیر کاظمی کے اشعار سے اس سانچے کی وضاحت ہوگی۔


        

رات ہم نے بھی یوں خوشی کرلی

دل جلا کے ہی روشنی کرلی


آتے جاتے رہا کرو صاحب

آنے جانے میں کیوں کمی کرلی


کانٹے دامن تو تھام لیتے ہے

کیسے پھولوں سے دوستی کرلی


ہم نے اک تیری دوستی کیلئے 

ساری دنیا سے دشمنی کرلی


تیری آنکھوں کی گہری جھیلوں میں

غرق ہم نے یہ زندگی کرلی


ہم نے ان سے نظر ملا کے مشیر

کتنی بے چین زندگی کرلی

مشیر کاظمی

اس غزل میں پہلا شعر مطلع ہے ۔ خوشی، روشنی، کمی، دوستی دشمنی، زندگی، قافیے ہیں ۔ " کر لی " ردیف ہے ۔ آخری شعر مقطع ۔جس میں 'مشیر' تخلص آیا ہے۔ قافیے اور ردیف کی وجہ سے آوازوں کی تکرار ہوتی ہے اور غزل میں نغمگی پیدا ہوتی ہے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے