Ad

حذف ایما اور ایمائیت


حذف ایما اور ایمائیت


حذف ایما اور ایمائیت

غزل کا ہر شعر معنوں کے لحاظ سے مکمل ہوتا ہے۔اس کا دوسرے شعر یا اشعار سے معنوی ربط ہونا ضروری نہیں۔اگر تمامعار میں خیال کا تسلسل ہوتو ایسی غزل کو غزل مسلسل کہیں گے۔ غزل کے ایک شعر یعنی دو مصرعوں میں کسی وسیع مضمون کو ادا کرنا ہوتا ہے جو آسان نہیں ۔ اس کے لئے شاعر مختلف تدابیر اختیار کرتے ہیں۔ایک طریقہ یہ ہے کہ بات کے کسی حصے کو حذف کردیا جائے ۔ اور اس طرف اشارہ کردیا جائے

:مومن کا شعر ہے

یہ عذر(بہانہ-کوتاہی) امتحان جذب دل کیسا نکل آیا

میں الزام اس کو دیتا تھا قصور(غلطی) میرا نکل آیا

 اس شعر میں یہ بات مخذوف ہے کہ عاشق نے محبوب کو کیا الزام دیا ۔ عذر امتحان جذب دل سے اشارہ ملتا ہےکہ الزام کیا تھا ۔محبوب نے عاشق سے ملاقات کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ نہیں آیا ۔ عاشق اس پر وعدہ خلافی کا الزام لگاتا ہے ۔ محبوب نے جواب دیا کہ میں تمھارے جذب دل کا امتحان لے رہا تھا ۔ اگر تمھارے دل میں کشش ہوتی تو خود کھینچ کر چلا آتا ۔ عاشق محبوب کو الزام دے رہا تھا ۔ لیکن محبوب کے جواب سے خود اس کا قصور نکل آیا 

بیان کے جس حصے کو حذف کیا گیا اس کو پانے کے لئے غزلیہ شاعری کے مضامین سے واقفیت ضروری ہے۔اس کے علاوہ بعض اوقات شاعر کے کلام سے رجوع ہوکر اس کے مخصوص مضامین شعری کا پتہ لگانا ہوتا ہے ۔


:غالب کا ایک شعر ہے

دیا ہے دل اگر اس کو 'بشر' ہے کیا کہیے

ہوا رقیب تو ہو، نامہ بر ہے کیا کہیے



دوسرے شعر کو پیش نظر رکھیں تو یہ بات کھلتی ہے کہ نامہ بر خط لے کر محبوب کے پاس جاتا ہے تو محبوب کے حسن سے متاثر ہو کر اس کا عاشق ہو جاتا ہے ۔ اب نامے کا جواب لانے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ عاشق کئی بار اس تجربے سے گزرتا ہے ۔ وہ اپنے دوست سے اس صورت حال کا ذکر کرتا ہے۔ دوست ایک شخص کو لاتا ہے اور اس کا تعارف کراتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ دیانت داری سے نامہ بری کا فرض انجام دے گا۔نامہ بر بھی وعدہ کرتا ہے کہ وہ اس کو شکایت کا موقع نہیں دے گا۔ نامہ بر خط لے کر جاتا ہے اور وہی ہوتا ہے جو ہوتا آیا تھا ۔ نامہ بر رقیب بن جاتا ہے اور لوٹ کر نہیں آتا ۔ اس پر دوست کو پشیمانی ہوتی ہے۔ عاشق اپنے دوست سے کہتا ہے کہ مجھے تجھ سے کچھ کلام نہیں ، کوئی شکایت نہیں ہے کیوں کہ میرا محبوب اتنا حسین ہے کہ جو بھی اسے دیکھے گا اس پر عاشق ہو جائے گا ۔ یہ تو ہونا ہی تھا ۔ لیکن نامہ بر جس کو اپنے پر اتنا اعتماد تھا کہ وہ ثابت قدم رہے گا اور صرف نامہ بری سے سروکار رکھے گا ، اپنے وعدے سے منحرف ہوگیا ۔ عاشق آپ ے دوست سے کہتا ہے کہ اگر نامی بر ملے تو میرا سلام کہنا۔ اردو میں سلام کہنے کے کئی مفہوم ہے ، کسی کو بلانا ہوتو کہتے ہیں کہ انھیں سلام کہیے، کسی کو یاد دلانا ہوتو بھی سلام کہلاتے ہیں ، اور اگر کوئی اپنی بات پر قائم نہ رہے تو طنزیہ اسے سلام کہلاتے ہیں ۔ اس شعر میں بھی طنزیہ سلام کہلایا گیا ہے کہ تم تو بڑی باتیں کرتے تھے لیکن محبوب کو دیکھنے کے بعد خود پر قابو نہ رکھ سکے ۔ آپ نے دیکھا کہ حذف و ایما کے طریقے کو کام میں لاکر کس طرح ایک وسیع مضمون کو دو مصرعوں میں سمو دیا گیا ہے۔


شعر میں ایمائیت پیدا کرنے کے کئی طریقے ہیں ۔ بعض دفاعی شعر کی ایمائیت غیر معین ہوتی ہیں ۔یہ بات قاری پر چھوڑ دی جاتی ہےکہ وہ اپنے تجربے، مشاہدے اور تخیل کو کام میں لاکر کوئی مفہوم پیدا کرے ۔


انوار انجم کا شعر ہے:

تم جو باتیں بھول چکی ہو مدت سے

میں تواب بھی ان میں الجھا رہتا ہوں


محبوب سے ابتدائے عشق میں جو باتیں ہوتی رہیں جو وعدے ہوئے انہیں محبوب تو بھول گیا ہے لیکن عاشق اب بھی ان انھیں باتوں میں الجھا ہوا ہے ۔ وہ کیا باتیں تھیں شاعر نے واضح طور پر بیان نہیں کیا۔ قاری پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ اپنے قیاس کو کام میں لائے اور شعر میں مفہوم پیدا کرے۔


تسلیم کا شعر ہے:

کیا کہا عندلیب چمن سے نکل گئی

کیا سن لیا گلوں نے کہ رنگت بدل گئی


یہ بات واضح نہیں ہے کہ عندلیب نے کیا کہا اور گلوں نے کیا سن لیا ۔ قیاس یہ کہتا ہے کہ عندلیب نے خزاں کی آمد کی خبر دی جس سے گھبراکر پھولوں کا رنگ اڑ گیا۔ اس شعر کے اور بھی مفاہیم ہوسکتے ہیں۔

غزل کے شعر میں دریا کو کوزے میں بند کرنا ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ بالعموم کوئی بات براہ راست نہیں بیان کی جاتی ، اظہار کا بالواسطہ پیرایہ اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ کام مجاز اور صنائع و بدائع سے لیا جاتا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے