![]() |
جدید اور جدید تر اردو غزل |
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
حفیظ جالندھری
جو مزاج دل نہ بدل سکا تو مذاق دہر کا کیا گلہ
وی تلخیاں ہیں ثواب میں وہی لذتیں ہیں گناہ میں
اختر شیرانی
یا رب غم ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتا
جو ہاتھ جگر پہ ہے وہ دست دعا ہوتا
چراغ حسن حسرت
دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ، ویسے ہم گھبرائے تو
عندلیب شادانی
یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
اختر انصاری
کب لوٹا ہے بہتا پانی، بچھڑا ساجن ، روٹھا دوست
ہم نے اس کو اپنا جانا جب تک ہاتھ میں داماں تھا
ابن انشا
اگر تو اتفاقا مل بھی جائے
تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے
حفیظ ہوشیار پوری
بار بستی تو اٹھا، اٹھ نہ سکا دست سوال
مرتے مرتے نہ کبھی کوئی دعا ہم سے ہوئی
خلیل الرحمٰن اعظمی
ایک ہمیں آوارہ کہنا اتنا بڑا الزام نہیں
دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں
حبیب جالب
دھواں دھواں سی ہے کھیتوں کی چاندنی باقی
کہ آگ شہر کی اب آگئی ہے گاؤں میں
باقی صدیقی
عجب سکون کا عالم ہے یاس کا عالم
یہ دل کشی تو غم انتظار میں بھی نہیں
سیف الدین سیف
وہ حسیں بیٹھا تھا جب میرے قریب
لذت ہمسائیگی تھی میں نہ تھا
عبد الحمید عدم
چراغ بزم ابھی جان انجمن نہ بجھا
جو یہ بجھا تو ترے خدو خال سے بھی گئے
عزیز حامد مدنی
پیراہن رنگیں سے شعلہ سا نکلتا ہے
معصوم ہے کیا جانے دامن کہیں جلتا ہے
نشور واحدی
بہ قدر پیمانہ تخیل سرور ہر دل میں ہے خودی کا
اگر نہ ہو یہ فریب پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا
جمیل مظہری
ابھی ہوس کو میسر نہیں دلوں کا گداز
ابھی یہ لوگ مقامِ نظر سے گزرے ہیں
صوفی غلام مصطفیٰ تبسم
ناصر کاظمی جدید اردو غزل کا اہم نام ہے۔
یہ بھی آرائش ہستی کا تقاضا تھا کہ ہم
حلقۂ فکر سے میدان عمل میں آئے
کچھ یادگار شہر ستم گر ہی لے چلیں
آئے ہے اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں
عمارتیں تو جل کر راکھ ہوگئیں
عمارتیں بنانے والے کیا ہوئے
دھیان کی سیڑھیوں پر پچھلے پہر
کوئی چپکے سے پاؤں دھرتا ہے
ہر خرابہ یہ صدا دیتا ہے
میں بھی آباد مکاں تھا پہلے
دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
پرانی صحبتیں یاد آرہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے
0 تبصرے