Ad

جدید اور جدید تر اردو غزل

جدید اور جدید تر اردو غزل

جدید اور جدید تر اردو غزل
جدید اور جدید تر اردو غزل


آزادی کے بعد سیاسی مسائل کی نوعیت وہ نہیں رہی تھی جن سے ترقی پسند تحریک کو زیاد سرو کار تھا۔ انگریز سامراج کی غلامی کا دور ختم ہو گیا تھا۔ بدلے ہوئے حالات میں اچھی تخلیقی صلاحیت رکھنے والے شاعروں نے غزل کو نیا موڑ دینے کی کوشش کی۔ بعض شعرا نے تخلیقی تحریک کے حصول کے لیے میر سے رجوع کیا جیسے ابن انشا، خلیل الرحمن اعظمی ، ناصر کاظمی وغیرہ ۔ ان کے علاوہ غزل کو نیا رنگ و آہنگ دینے میں عبد الحمید عدم، سیف الدین سیف،باقی صدیقی، نشور واحدی ، جمیل مظہری، حبیب جالب حفیظ ہوشیار پوری، صوفی غلام مصطفی، تبسم، عزیز حامد مدنی اور کئی دوسرے شاعر شامل ہیں ۔ ان شاعروں نے غزل کی جمالیات کو نئی حقیقت پسندی سے روشناس کیا، عصری زندگی کے مسائل اور تقاضوں پر بھی نگاہ رکھی اداری اور لطیف رمزیہ انداز میں اپنے احساسات کا اظہار کیا۔ آزادی کے فوری بعد غزل کے رجحانات کا اندازہ ان اشعار سے لگایا جا سکتا ہے


دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

حفیظ جالندھری


جو مزاج دل نہ بدل سکا تو مذاق دہر کا کیا گلہ

وی تلخیاں ہیں ثواب میں وہی لذتیں ہیں گناہ میں 

اختر شیرانی


یا رب غم ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتا

جو ہاتھ جگر پہ ہے وہ دست دعا ہوتا

چراغ حسن حسرت


دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو

آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ، ویسے ہم گھبرائے تو 

عندلیب شادانی


یاد ماضی عذاب ہے یارب

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

اختر انصاری


کب لوٹا ہے بہتا پانی، بچھڑا ساجن ، روٹھا دوست

ہم نے اس کو اپنا جانا جب تک ہاتھ میں داماں تھا 

ابن انشا 


اگر تو اتفاقا مل بھی جائے

تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے 

حفیظ ہوشیار پوری


بار بستی تو اٹھا، اٹھ نہ سکا دست سوال

 مرتے مرتے نہ کبھی کوئی دعا ہم سے ہوئی

خلیل الرحمٰن اعظمی


ایک ہمیں آوارہ کہنا اتنا بڑا الزام نہیں

دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں

حبیب جالب


دھواں دھواں سی ہے کھیتوں کی چاندنی باقی

کہ آگ شہر کی اب آگئی ہے گاؤں میں

باقی صدیقی


عجب سکون کا عالم ہے یاس کا عالم 

یہ دل کشی تو غم انتظار میں بھی نہیں

سیف الدین سیف


وہ حسیں بیٹھا تھا جب میرے قریب

لذت ہمسائیگی تھی میں نہ تھا

عبد الحمید عدم


چراغ بزم ابھی جان انجمن نہ بجھا

جو یہ بجھا تو ترے خدو خال سے بھی گئے

عزیز حامد مدنی


پیراہن رنگیں سے شعلہ سا نکلتا ہے

معصوم ہے کیا جانے دامن کہیں جلتا ہے

نشور واحدی


بہ قدر پیمانہ تخیل سرور ہر دل میں ہے خودی کا

اگر نہ ہو یہ فریب پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا 

جمیل مظہری


ابھی ہوس کو میسر نہیں دلوں کا گداز

ابھی یہ لوگ مقامِ نظر سے گزرے ہیں 

صوفی غلام مصطفیٰ تبسم


ناصر کاظمی جدید اردو غزل کا اہم نام ہے۔ 

ناصر کاظمی ابتدا میں میر اور فراق سے متاثر تھے۔ فراق کی طرح انھوں نے جذبات عشق سے زیادہ کیفیات عشق کی تصویر کشی پر توجہ کی، انسانی وجود کی صورت حال اور اپنے عہد کی سیاسی و سماجی حالات کو داخلی رنگ میں پیش کیا۔ ناصر کاظمی نے ہم عصر شعرا اور آنے والی نسل کے بہت سے شاعروں کو متاثر کیا۔ انھوں نے غزل مسلسل کی روایت کا احیا کیا۔ پیکر تراشی ان کے اسلوب کا خاص وصف ہے۔


یہ بھی آرائش ہستی کا تقاضا تھا کہ ہم

حلقۂ فکر سے میدان عمل میں آئے


کچھ یادگار شہر ستم گر ہی لے چلیں

آئے ہے اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں


عمارتیں تو جل کر راکھ ہوگئیں

عمارتیں بنانے والے کیا ہوئے


دھیان کی سیڑھیوں پر پچھلے پہر

کوئی چپکے سے پاؤں دھرتا ہے 


ہر خرابہ یہ صدا دیتا ہے 

میں بھی آباد مکاں تھا پہلے


دل تو میرا اداس ہے ناصر

شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے


پرانی صحبتیں یاد آرہی ہیں

چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے