Ad

مرزا غالب کی غزل گوئی

 

مرزا غالب غزل گوئی

مرزا غالب کی غزل گوئی

Mirza Ghalib ghazals 

غالب کی شخصیت جامع الصفات تھی وہ ایک شاعر کی حیثیت سے معروف تو ہیں ہی، ایک نثر نگار کی حیثیت سے بھی ان کا پایہ بلند ہے۔ ان کے خطوط اردو میں جد ید نثر کا سنگ بنیاد ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ان کی چند ایک کتابیں ہیں۔ شاعری میں غالب نے قصیدے لکھے اور مثنویاں وغیرہ بھی لیکن جس صنف کی وجہ سے غالب، غالب ہیں وہ ان کی غزل ہے۔ دیوان غالب کا زیادہ تر حصہ غزلوں پرمشتمل ہے۔ " دیوان غالب " کا پہلا ایڈیشن اکتوبر 1841 میں مطبع " سید الاخبار " دہلی سے شائع ہوا جب کہ لگ بھگ آٹھ سال قبل 1833ء میں غالب اس کو مرتب کر چکے تھے۔ اس کے بعد غالب کی زندگی میں ان کے دیوان کے چار ایڈیشن شائع ہوئے۔

    غالب کو فارسی اور اردو، دونوں زبانوں پر قدرت حاصل تھی۔ انھیں اردو  سے زیادہ اپنی فارسی دانی پر فخر تھا۔ انھوں نے کبھی اپنی فارسی شاعری پر ناز کرتے ہوۓ اردو شاعری کو " بے رنگ من است " کہا تو کبھی اردو شاعری کو رشک فارسی قرار دیا۔ ابتدا میں وہ فارسی شاعر بیدل کی پیروی کرتے تھے۔

طرز بیدل میں ریختہ کہنا 

اسد اللہ خاں قیامت ہے 

طرز بیدل میں ریختہ کہنے کے باعث ان کے کلام میں فارسی کی آمیزش زیادہ ہوئی، ابہام اور اشکال بھی پیدا ہوئے معمائی کیفیت بھی در آئی۔ مثلا یہ اشعار :

شمار سبحہ ، مرغوب بت مشکل پسند آیا

تماشائے بہ یک کف بردنِ صد دل پسند آیا


قمری کفِ خاکستر و بلبل قفسِ رنگ

اے نالہ نشانِ جگر سوختہ کیا ہے


اس نوع کی شاعری نے غالب کے کلام میں چیستانیت اور الجھاؤ کی کیفیت پیدا کردی اور لوگ کہنے لگے کہ یہ اپنا کہا آپ سمجھیں یا خدا سمجھے۔ ابتداً غالب نے اس بات کو یہ کہہ کر اڑا دیا کہ

نہ ستائش(تعریف) کی تمنا ، نہ صلے(بدل) کی پروا

نہ سہی گر میرے اشعار میں معنی نہ سہی


     لیکن بعد میں ان کے قریبی احباب جن میں مولانا فضل حق خیرآبادی کو نمایاں حیثیت حاصل ہے، غالب کو اس مشکل پسندی سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ ان کی بعد کی غزلوں میں مشکل پسندی کم ہوگئی اور بالعموم ان کے کلام میں سادگی، سلاست اور روانی کا احساس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ ہو:

Mirza Ghalib sad poetry

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے

آخر اس درد کی دوا کیا ہے


ابن مریم ہوا کرے کوئی 

میرے دکھ کی دوا کرے کوئی


کوئی امید بر نہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی


عرضِ نیاز عشق کے قابل نہیں رہا 

جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا 


بسکہ دشوار(مشکل) ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا



یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا


بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے

ہوتا ہے شب و روز تماشا(دن رات) مرے آگے

     غالب کی کامیابی کا باعث ان کی صرف عام فہم الفاظ، تراکیب اور سیدھے سادھے طرز کی شاعری نہیں بلکہ مجموعی طور پر ان کا ڈکشن ہے جو پڑھنے والوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ الفاظ کا انتخاب، مصرعوں کا در و بست، زندگی اور زمانے کے تعلق سے ان کا رویّہ انسانی جذبات و احساسات کا درک، ان کے اشعار کی معنویت اور تہہ داری، ان کا پیرایۂ اظہار اور ان کا انداز بیان، ان کے کلام کو وزن و وقار بھی عطا کرتا ہے اور مقبولیت اور محبوبیت بھی۔ غالب کو الفاظ کے انتخاب میں بڑا کمال حاصل تھا۔ ہر چند کہ انہوں نے کہا ہے :

آتے ہے غیب سے یہ مضامیں خیال میں 

غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے

     لیکن ان مضامین کو اشعار کی صورت میں پیش کرنے کے لئے الفاظ کے انتخاب کا ہنر کچھ ان ہی کو آتا تھا۔ غالب الفاظ کے مزاج شناس تھے۔ ان کا دعویٰ بے جا نہیں کہ :

گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے

جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے

اس سلسلے میں سب سے پہلے تو دیوان غالب کے پہلے شعر ہی پر نظر پڑتی ہے 

نقش فریادی(دہائی) ہے کس کی شوخیِ تحریر کا

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا


     ہمارے شارحین نے اس شعر کی جو تشریحات کی ہیں اور جو نئے نئے معانی نکالے اور مفاہیم پیدا کیے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالب نے اس شعر میں معنی مفہوم کی ایک دنیا آباد کردی ہے۔ ذیل کے اشعار میں بھی غالب کا یہ ہنر نمایاں ہے :

سراپا رہنِ عشق و ناگزیر الفت سہی

عبادت برق'بجلی' کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا


ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا

نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا


ہیں زوال آمادہ اجزا آفرینش کے تمام

مہر گردوں ہے چراغ رہ گزار باد یاں


رہا آباد عالم اہلِ ہمت جے نہ ہونے سے

بھرے ہے جس قدر جام و سبو، مے خانہ خالی ہے


غالب کے کلام کی ایک اور خصوصیت ان کا انداز بیان ہے۔ اپنے انداز بیان پر ناز کرتے ہوئے کہتے ہیں:


ہیں اور بھی دنیا میں سخنور(بات کرنے والے) بہت اچھے

کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں(شعر کا انداز) اور 

مرزا غالب اور مسائل تصوف

     غالب کا انداز بیاں ہی ہے جس نے ایک عالم کو گرویدہ کر لیا ہے۔ ان کے اشعار کا ڈکشن منفرد ہے۔ اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ غالب کے یہاں فکر اور موضوع کچھ اس طرح ہم آہنگ ہو جاتے ہیں کہ ان کے اسلوب میں طرح داری بھی پیدا ہو جاتی ہے اور تہہ داری بھی۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجیے جن میں ندرتِ خیال بھی ہے اور انداز بیان کی شگفتگی اور شستگی بھی :

Mirza Ghalib shayri 


نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا 


کیا وہ نمرود کی خدائی تھی

بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا


جسے نصیب ہو روزِ سیاہ میرا سا 

وہ شخص دن نہ کہے رات کو تو کیوں کر ہو 


غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ(موت) علاج

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر(صبح) ہونے تک


عشرتِ قتل گہہ اہل تمنا مت پوچھ

عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے