Ad

غالب اور مسائل تصوف



مرزا غالب اور مسائل تصوف


غالب اور مسائل تصوف

      غالب نے کسی خاص فلسفے یا نظریے کو اختیار نہیں کیا۔ زندگی کے مختلف نظریوں، فلسفوں پر ان کی نظر ضرور تھی جن سے وہ متاثر بھی ہوئے لیکن حیات و کائنات کے بارے میں ان کی فکر خود ان کے اپنے مشاہدات و تجربات کا نچوڑ ہے۔ زندگی کو انھوں نے ہر رنگ میں دیکھا، اس کا جائز ہ لیا اور اس کے تعلق سے ایک باشعور انسان کی طرح رد عمل کا اظہار کیا۔ تصوف کے مسائل کے تعلق سے بھی ان کا یہی حال رہا۔ ان کے عہد میں تصوف کو زندگی کی ایک اہم قدر کی حیثیت حاصل تھی۔ صوفیانہ مسائل اور موضوعات پر غالب کی نگا تھی ۔ انھوں نے ’’یہ مسائل تصوف اور ترا بیان غالب‘‘ کہہ کر تصوف سے اپنی دل چسپی کا اظہار بھی کیا ہے لیکن تصوف ان کے ہاں "براۓ شعر گفتن خوب است" کی حد تک تھا۔ ویسے وہ وحدت الوجود کے قائل تھے۔ تصوف کے بارے میں عام سوالات پر انھوں نے نشان لگا دیا ہے۔ چونکہ ان کا مطالعہ وسیع تھا، نظر میں گہرائی تھی اور بات کرنے کے ہنر سے واقف تھے اسلئے وہ جو بات بھی کہہ جاتے تھے، متوجہ کرتی تھی۔ اس پس منظر میں ذیل کے اشعار کا مطالعہ کیجئے : 
اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے 
حیراں ہوں، پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں 

دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں 
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں

دل ہر قطرہ ہے سازِ انا لبحر
ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا

جب وہ جمال دل فروز صورتِ مہرِ نیم روز 
آپ ہی ہو نظارہ سوز پردے میں منھ چھپائے کیوں
     غالب پکے صوفی شاید اس لیے بھی نہیں بن سکے کہ انھوں نے دنیا اور علائق دنیا سے خود کو دور نہیں رکھا۔ انھیں اپنی پنشن کی بھی فکر تھی، دربار میں اعزاز و اکرام حاصل کرنا چا ہتے تھے، اچھی شراب کی بھی خواہش تھی اور شہرت و ناموری کی بھی۔ ظاہر ہے ایسا شخص علم تصوف سے آ گہی رکھنے کے باوجود صوفی نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے تصوف کے مسائل پر گہری نظر ڈالی اپنے اطراف و اکناف کی زندگی، اپنے ماحول اپنے عہد کی تہذیب و معاشرت، سیاست اور اپنے زمانے کی دلی کے بارے میں خوب خوب لکھا۔ ان کے خطوط میں تو یہ با تیں صاف صاف اور دو ٹوک پیراۓ میں ملتی ہیں لیکن ان کی غزلوں میں بھی ایسے اشعار کی کمی نہیں جن میں ان کے عہد کے انتشار واختلال، بے چینی و بحران، کشمکش اور آویزش کی ترجمانی ہوتی ہے۔ غالب نے زیست ہی نہیں کی، زیست کو برتا اور آزمایا بھی۔ غالب کے دور کی تاریخ، مغلیہ سلطنت کے زوال اور معاشرت کے زیر و زبر کو ذہن میں رکھیے، ان اشعار کی معنویت فزوں ہو جاۓ گی :

 غالب کا تصور غم عشق

نکلنا خلد سے، آدم کا، سنتے آئے ہیں لیکن 
بہت بے آبرو ہو کر، ترے کوچے سے ہم نکلے

زندگی اپنی جب اس ڈھنگ سے گزری غالب 
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے

کیوں گردش مدام سے، گھبرا نہ جائے دل 
انسان ہوں، پیالہ و ساغر، نہیں ہوں میں

غم اگر چہ، جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے 
غم عشق گر نہ ہوتا، غم روز گار ہوتا 

      غم عشق اور غم روز گار کے شدائد کے باوجود غالب نے اپنی شخصیت کو سنبھال کر رکھا۔ انھوں نے آفات و مصائب برداشت کیے، ایک غیر یقینی صورت حال کا سامنا کیا شعر و ادب کے میدان میں مخالفتیں برداشت کیں، لیکن بکھر نہیں گئے، ان کی شخصیت ٹوٹی نہیں وہ ایک مکمل اور پورے آدمی رہے۔ ان کی خوش طبعی، مزاج کی شوخی اور طبیعت کی شگفتگی نے انھیں نا موافق حالات اور زندگی کے پیچ و خم سے گزرنے کا سلیقہ دیا۔ انھوں نے اپنے اشعار میں کئی جگہوں پر غم و اندوہ کی کیفیات اور احساس ذلت و ندامت کو ہنستے ہنستے ٹال دیا ہے۔ ’دیوان غالب‘ میں ایسے کئی اشعار مل جائیں گے: مثلاً 
دے وہ جس قدر ذلت، ہم ہنسی میں ٹالیں گے
بارے آشنا نکلا ان کا پاسباں اپنا

کہاں مے خانے کا دروازے غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا، کہ ہم نکلے

ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا 

چاہتے ہیں خوب رویوں کو اسد
آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے

غالب کی ادبی خدمات

       غالب نے غزل کے علاوہ اور اصناف میں بھی طبع آزمائی کی۔ انھوں نے قصیدے، مثنوی، رباعیات، قطعات اور مرثیے بھی لکھے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ غزل اور صرف غزل کے شاعر تھے۔ بقول رشید احمد صدیقی " غزل اگر اردو شاعری کی آبرو ہے تو غالب اردو غزل کی آبرو ہیں " انھوں نے اردو غزل کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا، غزل میں گہرائی پیدا کی، اس کو ایک تنوع سے آشنا کیا، اس کے درون میں ایک چمک اور مہک پیدا کی، خارجی طور پر تشبیہات و استعارات اور اشارات کے استعمال اور لہجہ و بیان کی طرفگی سے اس کی صورت ہی بدل دی۔ غالب نے اپنی شعر گوئی کے ابتدائی دور میں جب ان پر فارسی شعرا کا اثر تھا، مشکل اور دور از کار اور ادق تشبیہات، استعارات اور تلمیحات وغیرہ ضرور استعمال کیے لیکن جیسے جیسے انھوں نے سادگی کو اختیار کیا ان کے ہاں سہل، رواں دواں اور عام فہم تشبیہات، استعارات اور اشارات وغیرہ ملتے ہیں۔ اس رویے نے ان کی غزل کی دل کشی اور محبوبیت میں اضافہ کرتے ہوئے اس کی مقبولیت کے دائرے کو بہ غایت وسیع کر دیا۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
Mirza Ghalib urdu poetry
!کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

دیکھو تو دل فریبیِ اندازِ نقش پا
موجِ خرامِ یار، بھی کیا گل کتر گئی

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخیِ فرشتہ ہماری جناب میں

کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی

داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی 
اک شمع(چراغ) رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش(بجھی ہوئی) ہے 

اردو شاعری کی روایت

     اسی کے ساتھ یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ غالب نے جہاں اردو شاعری کی روایت کی پابندی کی خود ان کی غزل اردو شاعری کی ایک روایت بن گئی، ایک منفرد آواز بن گئی جس کی ایک الگ پہچان ہے۔ غالب کی شاعری آنے والے دور کی بشارت اور نوید کی حیثیت رکھتی ہے۔ غالب کا ہمارے دور کے شاعروں پر نمایاں اثر ہے۔ غالب کے فن سے آج بھی خوشہ چینی کی جاتی ہے۔ ترقی پسند تحر یک، اس کے بعد جدیدیت اور پھر آج کے دور کے شاعروں کے کلام کا مطالعہ کیجیے بالخصوص غزل کا تو معلوم ہوگا کہ ان کے ہاں غالب کے کلام کی باز گشت اور اس کے اثرات ہیں۔
      غالب کی شخصیت ہو کہ شاعری اتنی تہہ در تہہ، ایسی پہلو دار، ہمہ جہت او طلسمی ہے کہ اس کی تفہیم جس قد ر عام اور وسیع ہوتی جائے گی، ایسے گوشے سامنے آ ئیں گے جن کے بارے میں سوالات قائم کیے جاسکیں گے اور محققین، ناقدین اور شارحین کے لیے ایک نیا مواد، نیا افق اور ایک نئی دنیا سامنے آتی رہے گی اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے