محمد قلی قطب اور تصور محبوب
دکنی اردو کے دوسرے متغزلین کی طرح محمد قلی کا تصور محبوب اردو شاعری میں ایک منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ یہ محبوب تصوری و خیالی پیکر نہیں بلکہ اسی عالم رنگ و بو میں رہنے بسنے والا گوشت پوست کا مادی اور مجازی محبوب ہے ۔ محمد قلی کے یہاں محبوب کی جنس مبہم نہیں رہتی بلکہ برملا انداز میں وہ اس کے لیے صیغۂ تانیث کا استعمال کرتا ہے اور اسکی سہیلی، دھن، سودھن، ناری، پیاری، پدمنی، سندری، ٹھنی، سانولی، گوری، چھبیلی، کنّولی، پدمنی، ہندی چھوری وغیرہ ناموں سے یاد کرتا ہے۔ چند شعر دیکھئے
دھن سیس پر پھولاں جڑے انبر پہ جوں تارے جڑے
حوراں ملک دیکھن کھڑے دستن تماشا یو بڑا
ایسی سندر کوں پایا ہوں خدا کے رحم تھے قطبا
جو حوراں ہور ملک دیکھ کر ہوے حیران سارے ہیں
عشق کی پتلی ہے فوری رنگیلی
چتر نیناں میں دستی ہے چھبیلی
برستا سیس تیرے نور جلوہ
نہ دیکھی تجھ سی کوئی سندر سہیلی
رنگیلی سائیں تھے یوں رنگ بھری ہے
سگڑ سندر سہیلی گن بھری سے
0 تبصرے