Ad

محمد قلی قطب کی شاعری میں مذہبی رنگ


محمد قلی قطب کی شاعری میں مذہبی رنگ




محمد قلی کی غزلوں میں حسن وعشق کے ساتھ ساتھ مذہبی رنگ بھی شدت سے ظاہر ہوتا ہے۔ ان کی بیشتر غزلیں "نبی کے صدقے" اور "علی کے صدقے" سے شروع ہوتی ہے۔ اس میں شک نہیں کی محمد قلی مذہب پر بھر پور عقیدہ رکھتا ہے اور مذہبی ریت رسوم پر بھی چلتا ہے لیکن مذہب کی حقیقی روح سے اس کی شخصیت اور شاعری دونوں عاری ہے۔ اسے صرف مذہب کے تہذیبی پہلوؤں سے دلچسپی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ اپنی عیش کوشی کو بھی "نبی" اور "علی" کا صدقہ قرار دیتا ہے۔ مذہبی نظموں کے علاوہ اس کی غزلوں میں "نبی کے صدقے" اور "علی کے صدقے" سے شروع ہونے والے بے شمار قطعے موجود ہیں۔


نبی صدقے قطب جم عیش کر عیش

کہ تجھ در پر کھڑے ہے فتح و اقبال


محمد ہور علی کا ناؤں لے کر قطب شہہ جینتیا 

سو چنچل کے دو جو بن گڑتس اوپر کے بھی تن تعویذ


نبی صدقے بارہ اماماں کرم تھے

کرو عیش جم بارہ پیاریاں سو پیارے


     محمد قلی کو مذہب اس لئے عزیز ہے کہ اس کی مدد سے زندگی حکومت، دولت، عروج اور دینی اعزاز حاصل ہوا ہے۔ حمد و نعت مناجات و منقبت کے علاوہ اس نے عید میلاد، شب معراج، شب برات، رمضان، بقرعید، اور دوسری عیدوں پر متعدد غزل نما نظمیں لکھی ہے اور ایام عزاداری کا اہتمام بھی کیا ہے۔ لیکن کہیں بھی وہ ایک متقی یا پرہیز گار کی طرح عبادت کرتا نہیں نظر آتا بلکہ ہر عید اور تقریب میں اسے یہ فکر رہتی ہے کہ اس کی پیاریوں نے آج کونسا لباس زیب تن کیا ہے اور نبی کے صدقے سے آج وہ کتنی حسین دکھائی دے رہی ہے۔


نبی صدقے قطب بہو گن تین دن عیش کرنے تھے

یوں سرخوش، مدن سر خوش، جگن سرخوش، مکن سر خوش،


نبی صدقے کہی قطبا کی پیاری 

رجھا دم دم ادھر پیالا پلاتی


نبی صدقے قطب شاہ لگیا ہے دھن کے گلے

جوں کام الف نمن مل رہے الف ہور کام


نبی صدقے قطب سرمست ہوکر

پیاریاں سوں گمائے رات ساری 


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے