Ad

ذوق کی غزلوں کا اسلوب

 

ابراہیم ذوق کی غزلوں کا اسلوب


ذوق کی غزلوں کا اسلوب

شاعری کا اسلوب در اصل اس کے لب و لہجے، لفظیات، ردیف و قوافی کے انتخاب و استعمال، صنائع بدائع اور دیگر وسائل حسن بیان پر مبنی ہے۔ ذوق کے اسلوب میں حسن کے ساتھ کچھ معائب بھی ہیں جن کا ہم پہلے یہاں ذکر کر دیتے ہیں۔ ذوق کے پاس ردیف اور قافیے، نا مانوس او ثقیل بھی ہیں جیسے مگس، جام شراب، عسس جام شراب، خار زار، پشت، زینہار پشت، گھڑی دو گھڑی کے بعد، سر چڑھ کر، گھر چڑ کر، مکدر کو توڑ دوں پھر کو توڑ دو، کوٹ کوٹ کے، پھوٹ پھوٹ کے وغیرہ

ذوق کی شاعری اور غزل گوئی

     ذوق کو محاورہ بندی سے خاص رغبت ہے وہ اکثر پورے پورے محاورے کو نظم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے اشعار زبان کی قدرت کا ثبوت تو دے سکتے ہیں لیکن ان کی شاعرانہ قدر و قیمت میں کچھ اضافہ نہیں کر پاتے۔ مثلاً :

Ibraheem zouq Urdu poetry

آدمیت! اور شئے ہے، علم ہے کچھ اور چیز

کتنا توتے کو پڑھایا، پر وہ حیواں ہی رہا


لگاؤ خوب نہیں طبع کی روانی میں

کہ بو فساد کی آتی ہے، بند پانی میں 


لیتے ہی دل، جو عاشق دل سوز کا چلے

تم آگ لینے آئے تھے، کیا آئے کیا چلے


    ان کے بعض اشعار ایسے بھی ہیں جونری تک بندی کہے جاسکتے ہیں۔ ان میں نہ روز مرہ کا لطف، نہ مضمون ہے، نہ بندش، محض محض عامیانہ اور سوقیانہ خیالات و قافیہ پیمائی ہے۔ مثلاً :

چمن سے بعد ہمیں جیسے سین و قاف قفس

قفس میں بند ہیں ہم مثل بات ناف قفس


تو بھی فرو ہوئی، نہ ترش روئی شیخ کی 

ہر چند سوکھ سوکھ کے امچور ہوگیا


شیخ نے افطار یوں کے تر نوالے کھا لیے

ہاں مگر روزے کی خشکی سے چھوارا ہوگیا

ذوق کے حالات زندگی

     اس قسم کے اسقام اکثر شاعروں کے یہاں ہوتے ہیں یہ کچھ ذوق ہی سے متعلق نہیں۔ ذوق کے کلام کا غالب حصہ ان کے بہترین اسلوب کی تعریف میں آتا ہے۔ ذوق کی شاعری کا ایک حصہ وہ بھی ہے جس کی زبان سادہ اور بے تکلف ہے۔ ان میں سے بہت سے اشعار ضرب المثل بن گئے ہیں :

دیکھ چھوٹوں کو اللہ بڑائی دیتا ہے

آسماں آنکھ کے تل میں ہے دکھائی دیتا ہے 


یاں لب پہ، لاکھ لاکھ، سخن اضطراب میں 

واں ایک خاموشی تری، سب کے جواب میں 


اگر یہ جانتے چن چن کے ہم کو توڑے گے

تو گل کبھی نہ، تمنائے رنگ و بو کرتے 


لائی حیات آئے، قضا لے چلی چلے

اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے 

آتش کے کلام کی فنی خوبیاں

ردیف اور قافیہ ایک دوسرے سے اٹوٹ ہو تو شعر میں ایک اثر اور کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ذوق، ردیف و قافیہ سے بڑا کھیلتے ہیں، حسن پیدا کر دیتے ہیں۔ کہتے ہیں :


اگر ہوتے ہو تم برہم ابھی سے

تو پھر ہوتے ہیں رخصت ہم ابھی سے


لگے کیوں تم پہ مرنے ہم ابھی سے

لگایا جی کو اپنے غم ابھی سے


آتے ہی تو نے، گھر کی پھر، جانے کی سنائی

رہ جاؤں سن نہ کیوں کر پر تو بُری سنائی


کہنے نہ پائے اس سے ساری حقیقت ایک دن

آدھی کبھی سنائی آدھی کبھی سنائی


ذوق کی یہ غزل ان کے مخصوص رنگ میں بہت کامیاب ہے۔ زمین بھی ایسی ہے کہ بندش میں ڈھیلا پن یا سستی نہیں آنے پاتی، خوب رواں دواں شعر کہے ہیں:

تدبیر نہ کر ، دائرہ تدبیر میں کیا ہے

کچھ یہ بھی خبر ہے تری تقدیر میں کیا ہے


پارے کی جگہ کشتہ اگر ہوں دل بیتاب

پھر آپ ہی اکسیر ہے اکسیر میں کیا ہے


یہ غنچۂ تصویر کھلا ہے۔ ہ کھلے گا 

کیا جانے دلِ عاشق دل گیر میں کیا ہے 


" کیا ہے " کی ردیف ہر شعر میں الگ الگ کروٹیں لے رہی ہے۔ تکرارِ لفظی سے ذوق، ترنم پیدا کر دیتے ہیں :


ہم اور غیر یک جا دونوں بہم نہ ہوں گے

ہم ہوں گے وہ نہ ہوں گے وہ ہوں گے ہم نہ ہوں گے


بے قراری کا سبب ہر کام کی امید ہے

نا امیدی سے مگر آرام کی امید ہے 


ہوتا نہ اگر دل تو محبت بھی نہ ہوتی

ہوتی نہ محبت تو یہ آفت بھی نہ ہوتی


ذوق کے کلام میں کہیں کہیں ہلکا سا طنز محسوس ہوتا ہے۔ ذوق نے کبھی کسی کی تضحیک نہیں کی مگر طنز کے تیر ضرور برسائے ہیں۔

دل کشی چال میں، ایسی کہ، ستارے رک جائیں

سر کشی ناز میں، ایسی کہ گورنر جھک جائیں


میرے اسلام کو ایک قصۂ ماضی سمجھو 

ہنس کہ بولی! کہ، تو پھر مجھ کو بھی، راضی سمجھو


آنا تو خفا آنا ، جانا تو رلا جانا

آنا ہے تو کیا آنا ، جانا ہے تو کیا جانا


وقت پیری شباب کی باتیں

ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں


ذوق استاد سخن تھے انھوں نے ایسی زمینوں میں بھی غزلیں کہی ہیں جو زیادہ مقبول نہیں ہوسکتیں۔ ان میں بندشِ الفاظ کا سلیقہ اور عروضی پابندیوں کا خیال زیادہ ہے ، تاثیر کا نہیں۔ صرف ایک شعر :

اردو غزل کا آغاز و ارتقا

کتاب محبت میں اے حضرت دل بتاؤ کہ تم لیتے کتنا سبق ہو 

کہ جب آن کر تم کو دیکھا تو وہ ہی کیے دستِ افسوس کے دو ورق ہو 

میر تقی میر کی شاعری کا اسلوب

     ذوق کے یہاں، عام انسان کی عام واردات کو عام فہم زبان میں ڈھالنے کی کیفیت چھائی ہوئی جس کی۔ محاورہ بندی کا رنگ نمایاں ہے۔ مگر اس محاورہ بندی میں ناسخ کی سی شدت یا میکانیت نہیں ہے، بے ساختگی کا رنگ ہے، بے لاگ انداز میں سامنے کی باتیں ہیں۔ زبان کی صفائی کی وجہ سے دل کشی قائم رہتی ہے۔ عشقیہ اشعار ہوں کہ ناصحانہ ان کے یہاں اعتدال ہے، ویسا ہی جیسا ان کی زندگی میں تھا، کسی لفظ کا بے جا استمعال نہیں۔ ان کے مضامین مشکل اور چیستان نہیں۔ بہت سے اشعار ضرب المثل ہیں۔ وہ آپ ے اشعار میں مختلف علومِ فنون کی اصطلاحیں بے تکلف برتتے ہیں خصوصاً طب کی اصطلاح میں اکثر لے آتے ہیں۔ ان کے لب و لہجے میں شان وشوکت نہیں، مضامین میں تہہ داری نہیں۔ ذوق اردوئے معلٰی کے نمائندہ ہیں ان کے لئے اشعار گویا اردوئے معلٰی کے ٹکسال میں ڈھلے ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے