Ad

غواصی کے کلام میں تصور محبوب


غواصی کے کلام میں تصور محبوب


غواصی کے کلام میں تصور محبوب


     غواصی کا محبوب ایک پیکر حسن و شباب اور نسوانی محاسن کا مجسمہ ہے۔ جس کی چلتی پھرتی پرچھائیاں اس کی غزلوں میں دکھائی دیتی ہیں۔ غواصی نے اپنی محبوبہ کے لیے واضح طور پر تانیث کا صیغہ استعمال کیا ہے اور بر ملا انداز میں اسے سکی، سندری، موہنی، سجانا، سجن، دھن وغیر ہ ناموں سے یاد کیا گیا ہے۔اسی طرح ریختیوں میں چوں کہ اظہار عشق صنف نازک کی طرف سے ہوتا ہے اس لیے ان میں محبوب کو پیا، پیو، سائیں، یار، ساجنا، سجن، سجان، یار وغیرہ ناموں سے پکارا گیا ہے ۔ غواصی کی ریختیوں کے مطالعے سے اس صنف سخن پر اس کی غیرمعمولی قدرت اور عورتوں کی نفسیات کے شعور کا پتہ چلتا ہے۔غواصی نے نسوانی زبان، نسوانی لب ولہجہ اور عورتوں کے طرز تکلم کو فنی چابک دستی اور نفاست کے ساتھ پیش کیا ہے ۔غواصی کو صنف نازک اور اس کے مسائل سے غیر معمولی دلچسپی رہی ہے ۔ اس کی مثنویاں خاص طور پر "میناست و نتی" اور "طوطی نامہ"اس کی طبیعت کے اس رجحان کی غمازی کرتی ہیں۔ 


غواصی کے کلام میں تصور محبوب

غواصی کی ریختیوں میں ایک شریف النفس اور شوہر پرست ہندوستانی عورت جلوہ گر ہے جو اپنے "پیا" کوا پنی جان سے زیادہ عزیز رکھتی ہے، اس کی بانہوں کو نو سر ہار کہتی ہے۔ اور اسے اپنے گلے کی زینت بنانا چاہتی ہے ۔وہ اپنے’’سائیں‘‘ کے ساتھ ساری رات مل بیٹھنے اوراس کے’ادھر‘ کی ’امریت‘ پینے آرزو مند ہے۔

اے سکیاں بانھ پیا کا ہے سچا نو سرہار 
آج ووہار مرے گل منے باویں تو بھلا

کدھاں وو دیس ہووے گا جو سائیں سات مل بیسوں
کروں حظ دل منگے تیوں ہور ساری رات مل بیسوں

ہے ادھر سائیں کے امریت ولے پیار کر منج
منج پیاسی کوں وو امریت پلاویں تو بھلا


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے