Ad

میر تقی میر کے حالات زندگی

 

میر-تقی-میر-حالات-زندگی


میر تقی میر کے حالات زندگی


Mee taqi meer biography

میر تقی میر کی پیدائش

محمد تقی میر 20 نومبر 1722ء میں اکبر آباد( آگرہ) میں پیدا ہوۓ ۔ 1810 ء میں وہ لکھنو میں وفات پاگئے۔ میر کے بزرگ حجاز سے دکن آئے تھے۔ مگران کے پر دادا اکبر آباد گئے اور وہیں سکونت اختیار کی۔ میر کے والد ایک گوشہ نشیں درویش تھے ۔ میر نے اپنی خودنوشت ’’ ذکر میر‘‘ میں اپنے والد کے بارے میں لکھا ہے :

Ugc net urdu syllabus

’’ وہ ایک صالح عاشق پیشہ شخص تھے "گرم دل کے مالک" ، "شب زندہ داراور روز حیران کار" 

      میراپنے والد کی صحبت سے متاثر ہو ۔ 'ذکر میر' میں درج ہے کہ ان کے والد ان سے کہا کرتے ’’اے بیٹے عشق اختیار کر کیونکہ عشق کے بغیر زندگی وبال ہے دنیا میں جو کچھ ہے عشق کا مظہر ہے۔ بد قسمتی سے گیارہ سال کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ والد کی وفات کے بعدان کے بھائی حافظ محمد حسن نے ان سے برا سلوک کیا۔ جب تک وہ آگرہ میں رہے ان کی تعلیم و تربیت کی زمہ داری میر امان اللہ نے قبول کی۔ میر امان اللہ خود درویشانہ طبیعت رکھتے تھے ۔ وہ میر کے والد کے بہت قریب تھے ۔ میر ان کو عم بزرگوار سے موسوم کرتے تھے ۔ ظاہر ہے میر کی ابتدائی زندگی یتیمی، بے کسی اور ناداری میں گزری ۔ ان کے سوتیلے ماموں خان آرزو نے بھی ان کو ذہنی تکلیف پہنچائی، ان حالات میں میر جو ایک غم پسند دل کے کے آئے تھے ، زیادہ ہی درد و غم میں ڈوب گئے۔ یہ احساس غم ان کی طبیعت کا خاصہ تھا۔ بے سروسامانی کی حالت میں انھیں تلاش معاش کے لئے گھر سے نکلنا پڑا لیکن یہاں بھی انہیں ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا۔ اسی حالت میں انھیں جنون کے دورے پڑنے لگے اور وہ بے دماغی اور بد دماغی کا شکار ہوئے۔ جیسا کہ انھوں نے خود بھی لکھا ہے 

بے دماغی، بے قراری، بے کسی، بے طاقتی

کیا جئیں وہ، روگ جن کے جی کو یہ اکثر رہیں

محبت کسو سے رکھنے کا اس کو نہ تھا دماغ 

تھا میر بے دماغ کو بھی کیا ملا دماغ 

     اس میں کوئی شک نہیں کہ میر ایک گہری افسردگی کے شکار ہے لیکن اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس نے ان کی شخصیت میں انسانی درد مندی کا رخ اختیار کیا دردمندی نے ان کی شخصیت میں توازن برقرار رکھنے میں مدد دی۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے لکھا ہے ۔: 

      ان کے غم انگیز اشعار کو پڑھ کر طبیعت کند نہیں ہوتی۔ ان کام پر لطف معلوم ہو تا ہے ۔ "ان کے غم میں شریک ہونے کو جی چاہتا ہے۔"

     چونکہ میر کی طبیعت پر ان کے والد کے گہرے اثرات تھے اور انھیں عشق کرنے کی تلقین کرتے تھے اس لیے وہ اوائل عمر سے ہی جذبہ عشق سے آشنا ہوۓ۔ چنانچہ منشی احمد حسین سحر نے لکھا ہے

"مشهور است که بشهر خویش با پری تمشا لے کہ از عزیزانش بود، در پرد تعشق طبع و میل خاطر داشته "

( یہ بات مشہور ہے کہ ان کواپنے شہر میں ایک پری پیکر سے جو ان کی رشتہ دار تھی در پر دہ عشق اور دلی رغبت تھی)


      میر کی زندگی کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ آگرے میں مصیبتوں کا سامنا کرنے کے باوجود جب روزگار کی کوئی صورت نہ نکلی تو خواجہ محمد باسط کے تو سط سے ان کے چچا صمصام الدولہ امیر الامراء نے دہلی میں ان کے لیے ایک روپے کا روزینہ مقرر کیا لیکن اسی زمانے میں نادرشاہ نے دلی پر چڑھائی کی اور اس شہر کوتباہ کیا۔ جنگ میں صمصام الدولہ قتل ہوۓ اور میربروزینے سے محروم ہو گئے۔ اس کے بعد وہ واپس آ گرہ گئے وہاں مایوسی کا سامنا کرنے پر پھر دلی کا رخ کیا۔ دلی میں ان کی زندگی پہیم شکستوں اور محرمیوں سے عبارت رہی، مختلف امیروں

اورنوابوں کے یہاں ملازمت اختیار کی لیکن مستقل آمدنی کا ذریعہ نہ بن سکی آخرکار وہ دلی چھوڑ کرلکھنو چلے گئے، لکھنؤ کی روانگی کے بارے میں خود لکھتے ہیں:


میر تقی میر کی وفات

"ان ایام میں فقیر خانہ نشین تھا اور چاہتا تھا کہ شہر سے نکل جاۓ لیکن زادراہ سے مجبور تھا میری عزت و آبرو کے تحفظ کے لیے نواب وزیر الممالک آصف الدولہ کے دل میں خیال آیا کہ میر پاس آۓ تو اچھا ہے ۔ لکھنؤ میں آصف الدولہ سے قربت رہی لیکن اب وہ غم حیات سے بجھ چکے تھے ۔ آخر بہ روز جمعہ 20 ستمبر 1810ء کو لگ بھگ 90 سال کی عمر میں انتقال کر گئے ۔

Meer Taqi Meer ghazal 

میر کی تصانیف درج ذیل ہیں :

1 : غزلوں کے چھے دیوان

2 : ایک فارسی دیوان

3 : کئی مثنویاں

4 : ایک رسالہ بہ زبان فارسی

5 : شعرائے اردو کا تذکرہ بہ عنوان نکات الشعراء

6 : خود نوشت سوانح عمری بہ عنوان ذکر میر 


ناصر کاظمی لکھتے ہیں :

     " میر نوے سال کی طویل زندگی میں عالم، نقاد، عشق پیشہ، بادشاہوں کے ہم نشیں، درویش، ایک بڑے شاعر، غرض ایک بھر پور شخصیت تھے ۔ انھوں نے کیا کچھ نہیں دیکھا " ( میر ہمارے عہد میں )



میر کے چھے دیوان، میر تقی میر کی تصانیف، میر کا تعارف، میر تقی کی ابتدائی زندگی، میر تقی میر کی اولاد، تقی میر کی حالات زندگی، میر کی سوانح حیات،

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے