Ad

شمالی ‏ہند ‏میں غزل گوئی کا باضابطہ رواج

شمالی ہند میں غزل گوئی کا باضابطہ رواج
Shumali hind me ghazal goyi ka bazabta riwaaj

شمالی ‏ہند ‏میں غزل گوئی کا باضابطہ رواج

ولی کے اثر سے جب دہلی میں اردو شاعری کا چرچا ہوا (ولی کا دیوان 1718ء میں دہلی پہنچا تھا ) تو وہاں کے فارسی گو شاعر ولی کی تقلید میں ریختہ کہنے لگے ۔ ان کے کلام میں دکنی کے بہت سے لفظ ملتے ہیں ۔ رفتہ رفتہ انھوں نے دکنی میں مروج سنسکرت سے ماخوذ ہندوی لفظوں اور محاوروں کی جگہ فارسی کے الفاظ اور محاوروں کے ترجمے زبان میں داخل کیے ۔ مورخین ادب نے اسے اصلاح زبان کی تحریک کا نام دیا۔ دہلی میں اردو شاعری کے پہلے دور میں آبرو، آرزو، ناجی، یک رنگ اور حاتم کے نام آتے ہیں۔

نہ دینے لے کے دل وہ جعدِ مشکیں
اگر باور نہیں تو مانگ دیکھو
آبرو

جان کچھ تجھ پہ اعتماد نہیں
زندگانی کا کیا بھروسہ ہے
آرزو

اس درجہ ہوئے خراب الفت
جی سے اپنے اتر گئے ہم
حاتم

الہی مت کسو کے پیش رنجِ انتظار آوے
ہمارا دیکھئے کیا حال ہو جب تک بہار آوے
مظہر جانِ جاناں

غزل میں ایہام گوئی کا رواج

ایہام ایک صنعت ہے ۔ اس سے مراد شعر میں ایسا لفظ لایا جائے جس کے دو یا دو سے زیادہ معنی ہوں۔شعر پڑھ کر ذہن سامنے کے معنی کی طرف جائے ، غور کرنے پر اس کے دوسرے اصلی معنی پر توجہ مرکوز ہو۔ محولہ بالا آبرو کے شعر میں لفظ "مانگ" میں ایہام ہے۔ مانگ جو بالوں میں ہوتی ہے اس کے دوسرے معنی مانگنا ہے۔

مرزا مظہر جانِ جاناں اور بعض دوسرے شاعروں نے اس رجحان کی مخالفت کی ۔ چنانچہ آگے چل کر ایہام گوئی کم ہوگئی۔
دہلی کے شعرا نے فارسی غزل کی قدم بہ قدم پیروی کی ۔ فارسی غزل سے مضامین اخذ کیے۔ فارسی غزل کا سارا استعارتی نظام اردو میں منتقل کیا ۔ اس کی وجہ سے غزل کا وہ ہندوستانی مزاج برقرار نہیں رہا جو دکنی غزل کا وصف خاص تھا ۔ غزل پر ایرانی تہذیب کی گہری چھاپ پڑگئی۔ دہلی میں اردو شاعر کے دوسرے دور میں ایہام گوئی کم ہوگئی لیکن صنائع کا استمعال گن کارانہ انداز میں ہونے لگا ۔ اس دور کی اردو غزل میں سراپا نگاری کا رجحان بھی دکنی غزل کے مقابلے میں کم ہوگیا تھا ۔ شاعروں نے عشق کے جذبات و کیفیات کو موثر انداز میں ترجمانی کی ۔ اسی کے ساتھ معاملہ بندی کو فروغ ہوا۔ غزل کے موضوعات میں وسعت ہوئی۔ حیات و کائنات کے گوناگوں مسائل پر شعرا نے اپنے نتائج فکر کو تجربات و مشاہدات کی آنچ میں تپاکر شعر کے سانچے میں ڈھالا ۔ 

 غزل میں تصوف اور اخلاق کے مضامین بھی باندھے گئے۔ اس دور کی غزل کے چند شعر دیکھے:



نرگس و گل کی کھلی جاتی ہے کلیاں دیکھو
پھر یہ ان خوابیدہ فتنوں کو جگاتی ہے بہار
مظہر جانِ جاناں

اس درجہ ہوئے خراب الفت
جی سے اپنے اتر گئے ہم
شاہ حاتم

عشق کی ناؤ پار کیا ہووے
جو یہ کشتی ترے تو بس ڈوبے
سجاد

سر سری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہرجا جہان دیگر  تھا

دور بیٹھا غبار میر اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
میر تقی میر

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انساں نکلتے ہیں
میر تقی میر

اس گلشن و ہستی میں عجب دید ہے لیکن
جب آنکھ کھلی گل کی تو موسم ہے خزاں کا
سودا

سودا جو تیرا حال ہے اتنا تو نہیں وہ
کیا جانیے تو نے اسے کس حال میں دیکھا
سودا

فیض سے مستی کے دیکھا ہم نے گھر اللہ کا
جا رہے مسجد میں شب، غم کردۂ کاشانہ ہم
سودا

حجاب رخ یار تھے آپ ہی ہم
کھلی آنکھ جب کوئی پردہ نہ تھا
درد

ہمارے پاس ہے کیا جو فدا کریں تجھ پر
مگر یہ زندگی مستعار رکھتے ہیں
درد

مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مرجائے
کہ زندگی عبارت ہے تیرے جینے سے
درد

کہیو سے باد صبا بچھڑے ہوئے یاروں کو
راہ ملتی ہی نہیں دشت کے آواروں کو
میر سوز

ایک آفت سے تو مر مر کے ہوا تھا جینا
پڑ گئی اور یہ کیسی مرے اللہ نئی
میر سوز

قسمت تو دیکھو ٹوٹی جاکر کہاں کمند
دو چار ہاتھ جب کہ لب و بام رہ گیا
قائم

سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
میر حسن

حسن میں جب تئیں گرمی نہ ہو جی دیوے کون
شمع  تصویر  کے جب گرد  پتنگ  آتے  ہیں
میر حسن

ملو جو ہم سے مل لو کہ ہم بہ نوک گیاہ
مثال قطرۂ شبنم رہے رہے نہ رہے
نظیر اکبر آبادی

سخت خجل ہیں اور شرمندہ رہ رہ کر پچھتاتے ہیں
خواب میں اس سے رات لڑے ہم کیا ہی خیال خام کیا
نظیر اکبر آبادی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے