Ad

اردو ‏میں ‏غزل ‏گوئی ‏کا ‏آغاز ‏اور ‏دکنی ‏غزل ‏حصہ ‏الف

اردو ‏میں ‏غزل ‏گوئی ‏کا ‏آغاز ‏اور ‏دکنی ‏غزل ‏حصہ ‏الف

Urdu me ghazal goyi ka aazhaz or dakkani gazal 1


اردو میں غزل گوئی کا آغاز اور دکنی غزل حصہ الف
اردو میں غزل گوئی کا آغاز اور دکنی غزل حصہ الف


اردو میں غزل گوئی کی ابتدا فارسی شاعری کے اثر سے ہوئی ۔ امیر خسرو اردو (ہندی) کے پہلے شاعر تھے۔ ایک قدیم بیاض میں ان کی یہ غزل ملتی ہے جس کا ایک مصرع فارسی اور ایک مصرع اس وقت کی اردو زبان (ہندوئی) میں ہے یا آدھا مصرع فارسی ہے اور آدھا اردو:
زحالِ مسکیں مکن تغافل در ائے نیناں بنائے بتیاں 
کہ تاب ہجراں نہ دارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں

شبان ہجراں دراز چوں زلف و روز و صلش چو عمر کوتاہ
سکھی پیاں کوں جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں



 امیر خسرو کے پیر بھائی امیر حسن دہلوی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اس قدیم اردو یا ہندی میں ایک دیوان مرتب کیا تھا جو دستیاب نہیں ہوا ۔ ایک قدیم بیاض میں ان کی غزل ملتی ہے جو فارسی اور ہندی کو ملا کر لکھی گئی ہے۔

ہر لحظہ آید در دلم دیکھوں اسے ٹک جائے کر
گویم حکایت ہجر خود بہ آں صنم جی لائے کر

آں سیم تن گوید مرا در کوئے ما آید چرا
ماہی صفت تر پھوں جو ٹک نہ دیکھوں جائے کر

شمالی ہند میں اردو میں شعر گوئی کا باضابطہ سلسلہ قائم نہ رہا ۔
دکن میں اردو زبان صوفیائے کرام کے ذریعے پہنچی۔ تیموری حملوں کے بعد دہلی سے بہت سے لوگ ترک وطن کرکے گجرات آگئے اور اپنی زبان ساتھ لیتے آئے۔ گجرات میں یہ زبان گجری کہلائی۔ گجری کے شاعروں نے ہندی بحروں اور راگ راگنیوں میں شاعری کی۔ سب سے پہلے خوب محمد چشتی نے فارسی عروض کو گجری میں باضابطہ روشناس کیا ۔ گجرات کے زوال کے بعد بہمنی سلطنت میں دکنی کو فروغ ہوا ۔ فخرالدین نظامی کی مثنوی کدم راؤ پدم راؤ سے مثنوی نگاری کا آغاز ہوا۔ اسی دور میں غزل کی صنف بھی روشناس ہوئی ۔فیروز شاہ بہمنی فیروزی مشتاق اورلطفی دکنی کے پہلے غزل گو شاعر تھے۔ فیروزی کی غزل کا یہ مطلع دیکھے ۔
لٹکتی شہہ پری سو ہستی سو ہاوا سروسا ڈولتا
توں ایسی سرک پر ہوتی فرشتہ دیک تی بھولتا

مشتاق کی غزلوں کے چند شعر:
تج کیس گھنگھرو والے بادل پٹیاں ہیں کالے
تج مانگ کے اجالے بجلیاں اٹھیاں گگن میں

انکھیاں اپر ہیں بال یا پنجرے منے کھنجن رھیا
یا جالی میں مچھلی ہے یا بادل میں سیارہ دسے

او کسوت کیسری کرتن چمن میانے چلے ہے آ
رہے کھلنے کو تیوں دستی او چنپے کی کلی ہے آ

لطفی، محمد شاہ بہمنی (م 1482 ھ) کے دور کا شاعر تھا ۔ اس کی ایک ریختی دستیاب ہوئی ہے ۔ ایک شعر ہے:

خلوت منے سجن کی میں موم کی بتی ہوں
یہ پاؤں پر کھڑی ہوں جلنے پرت پتی ہوں

مشتاق اور لطفی کے بعد دکنی کے چند اور قدیم شاعروں کی غزلیں دستیاب ہوئی ہیں جن میں قریشی بیدری ، حافظ دکنی، جعفر، گستاخ اور فدائی کے نام قابل ذکر ہیں


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے