Ad

مرزا غالب کی غزلیں مع تشریح و خلاصہ

مرزا غالب کی غزلیں مع تشریح و خلاصہ

 

مرزا غالب کی غزلیں

           آپ نے غالب کی زندگی کے حالات کے بارے میں آگہی حاصل کی اور ان کی غزل گوئی کی خصوصیات سے بھی واقف ہوئے۔ اب ہم غالب کی چار غزلیں آپ کے مطالعے کے لیے پیش کر یں گے اور نمونے کے طور پر غالب کے دواشعار کی تشریح بھی کی جاۓ گی ۔

مرزا غالب کی حالات زندگی

Mirza Ghalib sad poetry

 1 غزل

درد منت کش دوا نہ ہوا 

میں نہ اچھا ہوا ، برا، نہ ہوا 


جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو 

اک تماشا ہوا گلا نہ ہوا 


ہے خبر گرم ان کے آنے کی 

آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا 


جان دی ، دی ہوئی اسی کی تھی 

حق تو یہ ہے، کہ حق، ادا نہ ہوا 


کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں 

آج غالب غزل سرا نہ ہوا

Mirza Ghalib ghazal 

2 غزل

پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا

دل جگر تشنۂ فریاد آیا


دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز

پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا


سادگی ہائے تمنا یعنی 

پھر وہ نیرنگِ نظر یاد آیا


زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی 

کیوں ترا راہ گزر یاد آیا


میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد

سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا

Mirza Ghalib urdu shayri

3 غزل

آہ! کو چاہیے، اک عمر اثر ہونے تک

کون جیتا ہے، تری زلف کے سر، ہونے تک


عاشقی صبر طلب، اور تمنا بے تاب

دل کا کیا رنگ کروں، خونِ جگر، ہونے تک


ہم نے مانا کہ، تغافل نہ کرو گے لیکن!

خاک ہو جائے گے ہم، تم کو خبر ہونے تک


یک نظر بیش نہیں، فرصتِ ہستی غافل

گرمیِ بزم ہے، اک رقصِ شرر، ہونے تک


غم ہستی کا اسد، کس سے ہو، جز مرگ علاج

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے، سحر ہونے تک

Mirza Ghalib poetry in urdu

4 غزل

سب کہاں! کچھ، لالہ و گل میں، نمایاں ہوگئیں

خاک میں، کیا صورتیں ہوں گی، کہ پنہاں ہوگئیں


یاد تھی ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں

لیکن! اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہوگئیں 


ہم موّحد ہیں، ہمارا کیش ہے، ترکِ رسوم

ملّتیں جب مٹ گئیں، اجزائے ایماں ہوگئیں 


رنج سے خو گر ہو انساں، تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں، مجھ پر پڑیں اتنی، کہ آساں ہوگئیں

Ghalib ghazal tashreeh

تشریح کلام غالب

جان دی ، دی ہوئی اسی کی تھی 

حق تو یہ ہے، کہ حق، ادا نہ ہوا 


     غالب کہتے ہیں ہم نے جان دے دی یعنی مر گئے لیکن اپنے مرنے کا غم اس لئے نہیں کرتے کہ خدائے تعالیٰ نے ہم کو زندگی دی تھی۔ جان خدا کی عطا تھی۔ اگر خدا نے ہماری جان لے لی ہے تو اس کی مرضی۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ہم کو زندگی کا جو حق ادا کرنا تھا وہ حق ہم سے ادا نہیں ہوسکا۔ ہم نے احکام خداوندی کے مطابق جیسی زندگی گزارنی تھی ویسی زندگی نہیں گزاری۔ ہم نے ذمہ داری پوری نہیں کی۔ افسوس اس کا کرنا چاہیے کہ ہم نے اپنا حق ادا نہیں کیا 


رنج سے خوگر ہو، انساں تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں، مجھ پر پڑیں اتنی،کہ آساں ہو گئیں


     انسان کی فطرت ہے کہ وہ کسی چیز کا عادی ہو جاتا ہے تو اس کو آسانی سے برداشت کرلیتا ہے چنانچہ رنج و غم کا بھی انسان عادی ہو جائے تو پھر رنج و غم سے وہ تکلیف ہی محسوس نہیں کرتا۔ گویا رنج اس کے لئے مٹ جاتا ہے، کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ غالب کہتے ہیں کہ مجھ پر بھی اتنی مشکلیں پڑیں کہ میں ان کا عادی ہوچکا ہوں۔ اب کوئی مشکل، مشکل ہی معلوم نہیں ہوتی۔ مشکلوں کو برداشت کرنا سہل اور آسان ہوچکا ہے

غواصی کے کلام کی تشریح

خلاصہ

اس اکائی میں ہم نے آپ کو غالب کی زندگی اور ان کی غزل گوئی کے بارے میں بتایا۔ تمہید کے تحت آپ نے اس اس اکائی کے خاکے کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ غالب کی زندگی میں جو اتار چڑھاؤ آئے اور غالب کو جن نشیب و فراز سے گزرنا پڑا، ان سے بھی آپ واقف ہوئے۔ غالب کی غزلوں کی خصوصیت سے آپ نے آگہی حاصل کی اور یہ بھی آپ نے معلوم کیا کہ غالب کی شاعرانہ عظمت کے کیا اسباب ہیں۔ آپ نے غالب کی چار غزلیں پڑھیں اور بہ طور نمونہ دو اشعار کا مطلب بھی ہم نے پیش کیا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے