Ad

ولی دکنی کے کلام میں صنعتوں کا استمعال

 

ولی دکنی کے کلام میں صنعتوں کا استمعال
ولی دکنی کے کلام میں صنعتوں کا استمعال


ولی دکنی کے کلام میں صنعتوں کا استمعال

ولی نے ہندی کے الفاظ اور فارسی الفاظ و محاورات کو اس طرح ملایا ہے کہ ایک خوب صورت اور دل کش ادبی زبان بن گئی ہے ۔ الفاظ وتراکیب کی جدت اور ندرت ولی کی شاعری میں نکھار اور خوب صورتی پیدا کرتی ہے۔

ولی دکنی کی شاعری

      شاعری میں مختلف صنعتوں کے استعمال سے ولی نے جو حسن پیدا کیا ہے اس کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں ۔ یہاں صرف ان ہی صنعتوں کا ذکر کیا جارہا ہے جو ولی کے کلام میں زیادہ پائی جاتی ہیں ۔

رعایت لفظی

      ولی کے پاس رعایت لفظی کا استعمال اکثر و بیشتر ہوا ہے ۔ ہے ایسے الفاظ کو جو ایک دوسرے سے کچھ نہ کچھ رعایت اور کنایہ رکھتے ہوں ترتیب دینے میں قدرت رکھتے ہیں:


صنعت مراعات النظیر

صنعت مراعات النظیر کا استعمال بھی ولی کے پاس مہارت کے ساتھ ماتا ہے ۔اس میں ایسی چیزوں کا ذکر کیا جا تا ہے جو باہم مناسبت رکھتی ہوں۔


آج کی رین مج کو خواب نہ تھا

 دونوں انکھ یاں میں غیر آب نہ تھا


تج حسن آب دار کی تعریف کیا لکھوں 

موتی ہوا ہے غرق تجھ دیکھ آب میں



صنعت حسن تعلیل

حسن تعلیل ایسی صنعت ہے جس میں کسی چیز کی ایک ایسی علت نہیں ہوتی جیسے۔


ماہ کے سینے اُپر اے ماہ رو 

داغ ہے تج حسن کی جھلکار کا 


مشرق سوں مغرب لگ سدا پھرتا ہے ہرہر گھرولے

اب لگ سرج دیکھیا نہیں ثانی ترا آفاق میں 


صنعت عکس و طرد

صنعت عکس و طرد میں ایک مصرع میں الفاظ جس ترتیب میں آئیں دوسرے مصرع میں ترتیب کو الٹ دیا جاتا ہے۔ ولی کے پاس اس کا استمعال ملاحظہ کیجئے۔


تجھ سوں لگی ہے لگن اے گل باغ حیا

اے گل باغ حیا تجھ سوں لگی ہے لگن 


مجھ کو ہے دارالامن پیو کا نقش چرن

پیا کا نقش چرن مج کو ہے دارالامن


صنعت تضاد 

کلام میں دو ایسے لفظ لانا جو ایک دوسرے کی ضد ہوں صنعت تضاد یا طباق کہلاتا ہے۔ ولی کے پاس اس صنعت کا استمعال ذیل کے اشعار میں ملاحظہ ہو۔


ہجر کی زندگی سوں موت بھلی 

کہ جہاں سب کہیں وصال ہوا


دورنگی سوں تری اے سرو رعنا

 کبھی راضی کبھو بے زار ہیں ہم


 مکھ ترا جیوں روز روشن زلف تیری رات ہے

 کیا عجب یو بات ہے اک ٹھار دن ہور رات ہے


 بخشی ہے تری نین نے کیفیت مستی 

تجھ مکھ نے خبر دار کیا بے خبری کوں


صنعت مبالغہ

کسی وصف کو شدت اور ضعف میں انتہا تک پہنچا دینامبالغہ کہلاتا ہے۔ ولی کے پاس اس کی مثالیں ملاحظہ کیجیے :


 ہمارے دیدۂ گریاں سے ابر تر کوں کیا نسبت

 وہ اک جھالے میں تھم جا تا ہے یہ برسوں برستے ہیں



  تجھ ہجر میں دامان و گریبان و رو مالاں

 شاکی ہیں ہر اک رات مرے دیدۂ تر سوں



صنعت ایہام

     ایہام کے لغوی معنی وہم میں ڈالنا ہے ایک لفظ کے دو معنی ہوں ایک قریب دوسرے بعید، لفظ ہے بعید معنی مراد لیے جائیں تو اس کو صنعت ایہام کہتے ہیں اس صنعت کو ولی نے فن کاری کے ساتھ استمعال کیا ہے۔ شمالی ہند کے شعرا نے ولی کی تقلید میں ایہام نگاری کو رواج دیا۔ صنعت ایہام ولی کے پاس پر لطف انداز میں ملتی ہے۔

موسٰی جو آکے دیکھے تج نور کا تماشہ

اس کو پہاڑ ہووے پھر طور کس تماشہ


مذہب عشق میں تری صورت 

دیکھنا ہم کو فرض عین ہوا


ایک کہتے ہیں مکھ یہ کعبہ ہے

اس میں پتلی نے کیوں کیا ہے محل


زہرہ جبیناں خلق کی آویں برنگ مشتری 

گر ناز سوں بازار میں نکلے وہ ماہ مہرباں


صنعت تضاد، رعایت لفظی کی تعریف، صنعت ترصیع، صنائع و بدائع، صنائع معنوی، صنعت ایہام، صنعت تجنیس، مراعات النظیر، صنعت حسن تعلیل، صنعت عکس و طرد، ایہام،


ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے