Ad

نواب مرزا شوق اور واجد علی شاہ اختر مثنوی نگاری

 

نواب مرزا شوق اور واجد علی شاہ اختر

نواب مرزا شوق اور واجد علی شاہ اختر

نواب مرزا شوق

Nawab Mirza shoq

نواب مرزا شوق آتش کے شاگرد تھے۔ یہ دبستان لکھنؤ کے اہم مثنوی نگار تھے۔ انہوں نے تین مثنویاں لکھیں جن کے نام یہ ہیں

فریب عشق

بہار عشق

زہر عشق


فریب عشق 1886 میں مکمل ہوئی۔ پروفیسر سیدہ جعفر لکھتی ہیں کہ " یہ ایک مقصدی مثنوی معلوم ہوتی ہے۔ جس میں شوق نے روز مرہ زندگی کے ایک تاریک پہلو کو رنگین الفاظ اور پر کشش طرز ادا کے وسیلے سے مثنوی کے روپ میں پیش کیا ہے " ( تاریخ ادب اردو جلد اول صفحہ نمبر 268 ) شوق کے عہد میں لکھنؤ کے امراء اور عوام عیش پسندی میں مبتلا اور لہو و لعب کے دل دادہ تھے۔ ان دنوں کربلا درسگاہ حضرت عباس اور حسین آباد کا امام بارہ جیسے مقامات جن کے ساتھ تقدس وابستہ تھا رنگ رلیوں کا اڈہ بنا لیے گئے تھے۔ اس مثنوی کے راوی نے مثنوی میں اپنی بے راہ روی کا ایک واقعہ بیان کیا ہے ۔ یہ مثنوی لکھنؤ کی بیگماتی زبان ، ان کے روز مرہ محاوروں اور خواتین کے اسلوب گفتار کا عمدہ نمونہ ہے۔


مثنوی بہار عشق کے راوی کے حیوانی جذبات اور نفسانی رجحانات کی رنگین داستان ہے جسے راوی نے بے باکی اور بے حجابی کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ بہار عشق میں عشق و ہوس کا عجیب امتزاج نظر آتا ہے۔ ہیرو پہلے تو مہ لقا کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے لیکن بعد میں اسی کے ساتھ شادی کرتا ہے۔ بہار عشق پلاٹ یا کردار نگاری کے اعتبار سے بلند پایہ مثنوی نہیں ہے۔ اس کی عظمت کا راز زبان کے لطف اور محاورے کی چاشنی میں پوشیدہ ہے۔


زہر عشق مرزا شوق کی تیسری اور آخری مثنوی ہے اسے شوق کا شاہ کار سمجھا جاتا ہے۔ اس کا قصہ آپ بیتی کے طور پر لکھا گیا ہے۔ مثنوی کا ہیرو ایک عالی خاندان سوداگر کی اکلوتی اور حسین لڑکی پر عاشق ہوتا ہے۔ لڑکی بھی اس پر مائل ہوتی ہے لیکن اس عشق کا حسرت ناک انجام ہیروئن کی خود کشی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ فنی اعتبار سے زہر عشق کا پلاٹ اور کردار نہایت کمزور ہے۔ اس مثنوی کی شہرت کا دارو مدار اس کی جذبات نگاری ، لکھنؤ کی با محاورہ ٹکسالی زبان اور اسلوب کی سادگی و شگفتگی پر ہے۔ یہ مثنوی شوق کی دوسری مثنویوں سے بالکل مختلف ہے۔ ان میں ہوس کو بیان تھا۔ اس میں عشق کی درد انگیز داستان ہے۔ اس مثنوی میں ہیرو اور ہیروئن کی آخری ملاقات نے زہر عشق اور شوق کے نام کو بقائے دوام عطا کی۔ اس ملاقات میں ہیروئن نے دنیا کی بے ثباتی اور فانی ہونے پر جو عبرت انگیز تقریر کی ، اردو مثنویوں میں اس کا جواب نہیں ملتا۔


جائے عبرت سرائے فانی ہے

مورد مرگ نو جوانی ہے

اونچے اونچے مکان تھے جن کے

آج وہ تنگ گور میں ہیں پڑے

تاج میں جن کے ٹکتے تھے گوہر

ٹھوکریں کھاتے ہیں وہ کاسۂ سر


شوق کی یہ مثنوی اتنی مشہور و مقبول ہوئی کہ تھیٹریکل کمپنیوں نے اسے ڈرامے کی شکل میں اسٹیج پر پیش کیا۔ شدت غم کے زہریلے اثرات کی وجہ سے حکومت نے اسے اسٹیج کرنے یا شائع کرنے پر پابندی لگادی تھی جو بعد میں ہٹالی گئی۔


واجد علی شاہ اختر

Wajid Ali Shah akhtar

اودھ کے آخری تاجدار واجد علی شاہ اختر ایک پر گو شاعر تھے۔ ان کی تصانیف میں نو مثنویاں ہیں جن کے نام اس طرح ہیں۔

افسانۂ عشق

دریائے عشق

بحرالفت

مثنوی گُنّا

عشق نامہ

حزن اختر

خطابات محلات

ہیبت حیدری

ثبات القلوب


ان میں آخری مثنوی ثبات القلوب کے سوا باقی ساری مثنویاں شائع ہوچکی ہیں ۔


اختر کی مثنویوں میں افسانۂ عشق ، دریائے عشق  لاہور بحر الفت داستانی مثنویاں ہیں اور انھیں کی ادبی اہمیت بھی ہے۔ تینوں مثنویوں کا قصہ اختر کا طبع زاد ہے۔ البتہ بحر الفت کے قصے میں انہوں نے سحر البیان ، گلزار نسیم اور اس دور کی دوسری داستانوں سے استفادہ کیا ہے۔ مثنوی بحرالفت اور حزن اختر میں علم موسیقی کے نکات کا نہایت مفصل بیان ہے۔ جس سے موسیقی میں اختر کی مہارت کا پتہ چلتا ہے۔ ان کے قصوں میں داستان امیر حمزہ کے اثرات بھی نظر آتے ہیں۔ چنانچہ ہر مثنوی میں سحر و طلسم کا کچھ نہ کچھ ذکر ملتا ہے۔ دیو اور پری ان کی مثنویوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ان کی مثنوی حزن اختر ان کی ولایت کے آخری ایام کی کہانی ہے۔ جس میں لکھنؤ سے نکلنا مٹیا برج کا حال ، کلکتہ کی قید ، سابق رنگ رلیوں کا ماتم ، محلات شاہی اور پریوں کی بے وفائی کے قصے ہیں۔ اس مثنوی کی اہمیت ادبی سے زیادہ سوانحی ہے۔


اختر کوئی بڑے شاعر نہیں تھے۔ مثنوی نگاری میں بھی انہوں نے فن کا کوئی اعلی نمونہ پیش نہیں کیا ۔ البتہ ان کی مثنویوں میں اس دور کے زیورات و ملبوسات کے نام محلاتی زندگی اور درباری آداب کے طور طریقے محفوظ ہوگئے ہیں۔ جہاں تک اختر کی زبان کا تعلق ہے وہ نہایت صاف اور معیاری ہے۔ لکھنؤ کا روز مرہ اور خاص طور سے بیگماتی زبان ان کی مثنویوں میں رخی بسی ہے۔


جاری ہے۔۔۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے