Ad

ولی دکنی کی غزلیں اشعار کی تشریح و خلاصہ

Ugc net urdu syllabus 2022 

ولی-دکنی-کی-غزلیں-اشعار-کی-تشریح-و-خلاصہ
ولی دکنی کی غزلیں اشعار کی تشریح و خلاصہ


ولی دکنی کی غزلیں اشعار کی تشریح و خلاصہ

ولی کی زندگی کے حالات اور ان کی غزل گوئی کے بارے میں معلومات فراہم کر نے کے بعد ذیل میں ان کی چار غزلیں درج کی جارہی ہیں اور بہ طور نمونہ ولی کے دواشعار کی تشریح بھی پیش ہے ۔

 غزل ۔ ا

مت غصے کے شعلے سوں جلتے کیوں جلاتی جلا 

ٹک(تھوڑا) مہر (لطف) کے پانی سے تو آگ بجھاتی جا


تجھ پال کی قیمت سوں دل نئیں ہے مرا واقف 

 اے مان بھری چنچل (شوخ) ٹک(ذرا) بھاؤ (ادا) بتاتی جا


اس رات اندھیری میں مت بھول پڑو تس سوں

ٹک(تھوڑا) پاوں کے جھانجھر (آواز) کی جھنکار سناتی جا



تج گھر کی طرف سندر آ تا ہے ولی دائم

 مشتاق درس کا ہے ذرا درس دکھاتی جا

غواصی کے اشعار کی تشریح و خلاصہ


غزل ۔ ۲

فداۓ دل بر نگیں ادا ہوں کیا ہوں 

شہید شاہد گلگوں قبا ہوں 


کیا ہوں ترک نرگس کا تماشا

طلب گار نگاہ با حیا ہوں


نہ کہہ شمشاد کی تعریف مج پاس

کہ میں اس سر و قد کا مبتلا ہوں


سدا رکھتا ہوں شوق اس کے سخن کا

ہمیشہ تشنۂ آب بقا ہوں


قدم پر اس کے رکھتا ہوں ہمیشہ سر

 ولی ہم مشرب (ایک عقیدہ رکھنے والا) رنگ حنا ہوں


قلی قطب شاہ کے اشعار کی تشریح

غزل ۔ ۳

کیا تج عشق(محبت) کوں ظالم نے آب آہستہ آہستہ 

کہ آ تش گل کوں کرتی ہے گلاب آہستہ آہستہ


عجب کچھ لطف رکھتا ہے شب خلوت میں گل رو(پھول جیسا) سے

خطاب آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ


ادا و ناز سوں(سے) آ تا ہے وہ روشن جبیں گھر سوں ( سے)

کہ جیوں (جیسے) مشرق سوں (سے) نکلے آ فتاب آہستہ آہستہ

   

ولی مج دل میں آتا ہیں خیال یار بے پروا 

کہ جیوں انکھیاں منیں آ تا ہے خواب آہستہ آہستہ


غزل ۔ ۴

اگر موہن کرم سے مجھ طرف آوے تو کیا ہووے 

اداسوں اس قد نازک کو دکھلائے تو کیا ہووے


مجھے اس شوخ کے ملنے کا دائم (ہمیشہ) شوق ہے دل میں

 اگر ایک بار مج سے آ کے مل جائے تو کیا ہووے


 رقیباں (دشمن) کے نہ ملنے میں نہایت اس کی (وجہ)خوبی ہے

 اگر دانش کو اپنی کام فرما وے تو کیا ہووے


 پیا کے قند لب او پر کیا ہے ہٹ مرے دل نے

 محبت سو اگر ٹک(تھوڑا) اس کو سمجھاوے تو کیا ہووے


ولی کہتا ہوں اس موہن سون ہر اک بات پردے میں 

اگر میرے سخن (بات کا سلیقہ) کے مغز کو پاوے تو کیا ہووے


ولی دکنی کی کلام کے دو اشعار کی تشریح
پہلا شعر

مت غصہ کہ شعلہ سے جلتے کو جلاتی جا 

ٹک مہر کے پانی سے تو آ گ بھاتی جا


      نصاب میں شامل ولی کی غزل کا یہ شعر ذخیرۂ الفاظ اور انداز میں گیت کی مٹھاس رکھتا ہے ۔اس میں خیالی معشوق نہیں بلکہ گوشت پوست کا محبوب اظہارعشق پرغصہ کرتا نظر آ تا ہے ۔ یہ تصویر بازاری عشق سے مختلف نظر آتی ہے ۔محبت کے اظہار پر غصہ باحیا محبو بہ کی تصویشی کر تا ہے ۔ اس سے مہر بانی کی التجا عاشق کے سچے پیار پر روشنی ڈالتی ہے ۔ یہ عشق و محبت کا صحت مند رجحان ہے ۔ اس میں فطری طور پر جذبات کی نمائندگی کی گئی ہے۔ جذ بہ عشق کی تپش جسم و جاں میں حدت پیدا کر دیتی ہے اور اس آگ کو بجھانہ محبوبہ ہی کے کرم پر منحصر ہوتا ہے ۔ عاشق اپنے جذبات کے اظہار کے ساتھ محبوبہ کے رد عمل کو قبول کر تے ہوۓ اس کے مہر و مروت کا متمنی نظر آ تا ہے ۔

 ولی کے دوسرے شعر کی تشریح


تج چال کی قیمت سے دل نہیں ہیں میرا واقف 

اے مان بھری چنچل(شوخ) ٹک(تھوڑا) بھاو بتاتی جا 


     شاعر کہ رہا ہے کہ میں تیرے ناز و انداز سے واقف نہیں ہوں ۔ تجھے کس طرح اپنی طرف ملتفت کروں نہیں جانتا۔ اے شوخ حسینہ تھے رام کرنے کا طریقہ بتادے میری مدد کر کس قیمت پر تو میرے جذبہ عشق کو قبول کرے گی بتادے۔ ایسا ناز و عشوہ دکھا کہ جس سے میں یہ معلوم کر لوں کہ تجھے کس طرح کس قیمت پر حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ اس شعر میں ایہام ہے ۔ بھاؤ ذومعنی لفظ ہے ۔ بھاؤ کے ایک معنی ہیں انداز دوسرے معنی ہیں قیمت، چال کی نسبت سے بھاؤ کالفظ مناسبت رکھتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ میرا دل تیری چال کی قیمت سے واقف نہیں تو اپنی چال کا بھاؤ ( قیمت) بتاتی جا۔

یو جی سی نیٹ 2022

خلاصہ

     اس اکائی میں ہم نے ولی دکنی کے حالات زندگی کا مطالعہ کیا ۔ ولی کا نام ولی محمد تھا ۔ اورنگ آباد میں پیدا ہوۓ ۔ اپنے زمانے کے مروجہ علوم کی تحصیل کی ۔ حج بیت اللہ سے مشرف ہوۓ ۔ دہلی کا سفر کیا۔ ان کے اثر سے دہلی میں اردو غزل کا چراغ روشن ہوا ۔ غزل میں ولی کا پایہ بہت بلند ہے۔ سراپا نگاری میں انھیں کمال حاصل تھا۔ ولی نے غزل میں تصوف اوراخلاق کے مضامین بھی باندھے ہیں۔ ولی اعلی درجے کے فن کار تھے۔ انھوں نے تشبیہوں اور استعاروں کے علاوہ لفظی اور معنوی صنعتوں کا استعمال بھی فن کاری کے ساتھ کیا ہے ۔ ولی کا انتقال 1720 ء اور 1725 ء کے درمیان ہوا ۔


ولی دکنی کی صوفیانہ شاعری، شاعر شاعری، ولی دکنی کے سوانح، ولی دکنی کی غزل گوئی کی خصوصیات، اردو غزل کی تشریح، ولی دکنی کی غزل گوئی، غزل تشریح و خلاصہ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے