جدید مثنوی نگاری اور علامہ شبلی نعمانی
Jadid masnavi or shibli nomani
مولانا شبلی نعمانی مورخ محقق اور نقاد کی حیثیت سے تاریخ ادب میں ایک خاص مقام و مرتبے کے حامل ہے۔ وہ ایک خوش فکر سخن ور بھی ہے۔ نئے رنگ کی مثنویوں میں ان کی مثنوی صبح امید کئی اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے۔ شبلی نے یہ مثنوی 1884 ء میں لکھی۔ اس میں 358 اشعار ہے۔ یہ مثنوی پانچ اجزا میں منقسم ہے۔ ہر حصے کے آغاز میں ایک فارسی شعر بہ طرز عنوان درج کیا گیا ہے۔ شبلی کی اس مثنوی سے چند سال پیشتر حالی کا مسدس مد و جزر اسلام شہرت پا چکا تھا۔ شبلی نے بھی اس موضوع پر طبع آزمائی کی اور اس میں شک نہیں کہ مسدس سے ہٹ کر اپنی الگ راہ نکالنے میں کامیاب رہے۔ اس مثنوی سے شبلی بحیثیت شاعر مشہور ہوئے۔ اس مثنوی کی تصنیف کے وقت شبلی سر سید کے حلقہ اثر میں تھے۔ اس لیے اس مثنوی میں بھی سر سید کے خیالات کی گونج سنائی دیتی ہے ۔ بعد میں شبلی کے خیالات سر سید سے مختلف ہو گئے۔
مثنوی صبح امید کی خصوصیات
مثنوی صبح امید ایک ہنگامی موضوع پر لکھی گئی مثنوی ہے جس میں افاقیت اور دوام پیدا کرنے والے عناصر نہیں ہے۔ خود شبلی کو بھی اس کا اندازہ تھا اس لئے خاری عمر میں انہوں نے اسے اپنی تصانیف سے خارج کر دیا تھا۔ لیکن شبلی کے شعری سرمائے میں اس نظم کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ صبح امید میں پہلے اسلام کی عظمت رفتی کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد امت مسلمہ کے زوال پھر سر سید احمد خاں کی اصلاحی و رہنمائی علی گڈھ کے قیام پر روشنی ڈالتے ہوئے اس اصلاحی اور تعمیری کام کو جاری رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس مثنوی میں شبلی نے اردو کی فرسودہ شاعری پر بھی چوٹ کی ہے۔
بے ہودہ فسانہ ہائے پاریں
زلف و خط و خال کے مضامین
وہ نوک مژہ کی نیزہ بازی
وہ ترک نگہ کی فتنہ سازی
یہ طرز خیال تھا ہمارا
یہ فن یہ کمال تھا ہمارا
جغرافیہ وجود سارا
ہر چند کے ہم نے چھان مارا
کی سیر بھی گر چہ بحر و بر کی
لیکن نہ ملی خبر کمر کی
پوری مثنوی میں شبلی کا انداز نہایت شگفتہ ہے۔ اس مثنوی میں شبلی کی زبان اور اسلوب پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں۔ لفظ فصیح، معنی بلند، ترکیب دل پذیر، تشبیہ وہ استعارے نازک، حشو و زوائد سے پاک اور بیان پر اثر اور یہی چیزیں مثنوی کی جان ہوتی ہے۔ ( سید سلیمان ندوی ، مضمون " مولانا شبلی اردو شاعر کے لباس میں " مشمو
لہ کلیات شبلی )
0 تبصرے