Ad

مثنوی : امیر مینائی اور ان کے معاصرین


امیر مینائی اور ان کے معاصرین

امیر مینائی اور ان کے معاصرین


امیر اللہ تسلیم

Ameerullah tasleem


منشی امیر اللہ تسلیم مشہور غزل گو شاعر حسرت موہانی کے استاد تھے۔ تسلیم بنیادی طور پر مثنوی کے شاعر تھے۔ ان کی درج ذیل مثنویاں دستیاب ہوئی ہیں :


1. نالۂ تسلیم   2. دل و جان   3. شام غریباں   4. نغمہ مسلسل   5. تواریخ بدیع   6. خنجر عشق   7. اختر عشق   8. تواریخ کامل (قلمی)   9. سفر نامہ خسروی (قلمی)   10. تاریخ لوہارو ( قلمی)   11. صبح خنداں


تسلیم شاعری میں نسیم دہلوی کے شاگرد تھے۔ شام غریباں اور صبح خنداں ان کی بہترین مثنویاں ہیں۔ ان کی بعض مثنویوں میں فوق فطری عناصر نظر آتے ہیں۔ ان کی غیر مطبوعہ مثنویاں منظوم تاریخیں ہیں۔ تسلیم کی مثنویوں میں وہ برجستگی اور بے ساختگی نہیں جو قدما کے ہاں پائی جاتی ہے۔


امیر مینائی

Ameer minayi


امیر مینائی کو اسیر لکھنوی سے تلمذ حاصل تھا۔ انہوں نے متعدد اصناف میں طبع آزمائی کی۔ ان کی مثنویوں کے نام یہ ہیں۔

1. عاشقانہ مثنوی   2. کارنامہ عشرت   2. کارنامہ عشرت   3. نور تجلی   4. ابر کرم   5. حکایت اویس قرنی   6. قصہ یہودی

امیر مینائی کی مثنویوں میں عاشقانہ مثنوی ( جس کا کوئی عنوان نہیں ) اور کارنامہ عشرت ادبی اعتبار سے اہم ہیں۔ امیر کی مذہبی مثنویاں ایمان و عقیدت کی گرمی سے لبریز ہیں۔ امیر کی پختگی اور مہارت سخن ان مثنویوں میں بھی نمایاں ہے۔

UGC NET URDU SYLLABUS 

داغ دہلوی

Daag dahelvi


داغ بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے مگر انہوں نے ایک مثنوی بھی لکھی جس کا نام فریاد داغ ہے۔ اس میں انہوں نے کلکتہ کی ایک طوائف ماہ منیر متخلص بہ حجاب سے اپنے عشق کی داستان لکھی ہے۔ داغ کی زندگی ، ان کی شخصیت اور ان کا ماحول نہایت رنگین تھا۔ لیکن ان کی مثنوی میں کوئی ٹکڑا خلاف تہذیب نہیں ملتا۔ لکھنؤ کی بہترین زبان مرزا شوق نے لکھی۔ دلی کی زبان کی معراج داغ کے یہاں ہے۔ فریاد داغ کا سرمایہ امتیاز زبان ہے۔ زبان سے ہٹ کر پلاٹ ، واقعہ نگاری اور ربط تسلسل کے اعتبار سے یہ مثنوی کمزور ہے۔ اس میں عشق اور ہجر کا بیان ہے لیکن جذبات نگاری میں سوز و گداز نہیں ہے۔ فریاد داغ دلی کی آخری مثنوی ہے۔


شوق قدوائی

Shoq qidwai


احمد علی شوق قدوائی نے کئی مثنویاں لکھیں جن کے نام یہ ہیں۔ ترانۂ شوق ، عالم خیال ، حسن ، بہار ، برسات ، سائنس اینڈ ریلچیئن اور قاسم و زہرہ۔ ان میں ترانۂ شوق قدیم طرز کی داستانی مثنوی ہے۔ اس مثنوی کی تصنیف میں شوق نے سحر البیان ، گلزار نسیم  اور طلسم الفت سے استفادہ کیا ہے۔ خصوصاً گلزار نسیم ان کے پیش نظر رہی ہے۔ اس لئے اس کے بیانات میں جا بجا گلزار نسیم کا رنگ جھلکتا ہے۔ اس کی زبان ، صفائی اور روانی میں گلزار نسیم کے ہم پلہ ہے۔

شوق کی دیگر مثنویوں میں حسن ، عالم خیال اور سائنس اینڈ ریلچیئن جدید طرز کی مثنویاں ہیں۔ عالم خیال جدید مثنویوں میں واحد عشقیہ مثنوی ہے۔یہ ایک تصوراتی مثنوی ہے جس میں ایک بیوی اپنے پردیس گئے ہوئے شوہر کے بارے میں مختلف طریقوں سے سوچتی اور یاد کرتی ہے۔ حالی کے نیچرل شاعری کے نظریے کے مطابق اس میں دلی محسوسات کو اصلی حالت میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔


جاری ہے۔۔۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے